donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Aslam Jawed
Title :
   Canada Ki Smantha Aur Farzeen Ki Shadi Ka Sabaq

کنیڈا کی سمنتھا اورفارزین کی شادی کا سبق


ڈاکٹراسلم جاوید


کینیڈا میں ایک جوڑے نے اپنی شادی کی پرتکلف دعوت منسوخ کر کے وہی رقم ایک شامی پناہ گزین گھرانے کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سمنتھا جیکسن اور ان کے شوہر فارزین یوسف نے نہ صرف پرتکلف دعوت کی جگہ شادی کی رسم سرکاری ’سِول میرج‘ کے تحت منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ،بلکہ انھوں نے اپنے متوقع مہمانوں سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ انھیں تحفے دینے کی بجائے پیسے ایک ایسے شامی گھرانے کے نام دے دیں جو ان دنوں کینیڈا آنے کی کوشش کر رہا ہے۔تفصیلات کے مطابق سمنتھا جیکسن اور فارزین یوسف اپنی شادی کی تقریب کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ انھوں نے شامی بچے ایلان کْردی کی تصویر دیکھی جو ترکی کے ساحل پر مردہ پایا گیا تھا۔

اس موقع پر انھیں احساس ہوا کہ وہ اپنی شادی کے موقع کو پناہ گزینوں کے لیے امداد جمع کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔سمنتھا جیکسن اور فارزین یوسف نے بتایا کہ شادی کی روایتی بڑی تقریب کو منسوخ کرنے سے پہلے ہی سمنتھا جیکسن کینیڈا میں ایسے لوگوں کی مدد کر رہی تھیں جو انفرادی طور پر پناہ گزینوں کی مدد کے خواہش مند تھے۔

مسٹر یوسف کے بقول تصویر دیکھنے کے بعد سے ’’ہمارے لیے اس خیال سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ کئی شامی گھرانوں کو کیسے کیسے مشکل فیصلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔ یہ خیال آتے ہی ہم نے اس امید کے ساتھ اپنی شادی کے منصوبے پر نظر ثانی شروع کر دی کہ ہم کسی شامی گھرانے کو ٹورونٹو میں ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کر سکیں۔

جس کے بعد تین ہفتوں کے اندر اندر انھوں نے اس مقصد کے لیے رقم اکٹھی کرنا شروع کر دی۔یوسف کے بقول ’ہمارا پیغام بالکل واضح تھا اور وہ یہ کہ پناہ گزینوں کے لیے کینیڈا کے دروازے کھلے ہیں۔سمنتھا جیکسن اور فارزین یوسف اب تک 22,750 کینیڈین ڈالر جمع کر چکے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ جلد ہی 27,000 ڈالر اکٹھے کر لیں گے۔ یاد رہے کہ چار افراد پر مشتمل کسی شامی گھرانے کو کینیڈا بلانے کے لیے اسپانسر کرنے والے شخص کے پاس 27 ہزار ڈالر ہونا ضروری ہیں۔

یہ عہدساز نوبیاہتا جوڑا اپنے اقد ا ما ت کے بارے میں کہتا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ ہماری مثال سے بہت سے دوسرے لوگوں کا حوصلہ بڑھے گا، بالکل ایسے ہی جیسے کئی دوسرے لوگوں کو دیکھ کر ہمیں بھی تقویت ملی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم لوگ بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ہماری شادی کی تقریب نے یہ موقع فراہم کیا کہ ہم کسی بڑے مقصد کے لیے کام کر سکیں۔یاد رہے کہ کینیڈا کی حکومت آئندہ ہفتے ایک منصوبے کا اعلان کرے گی جس کے تحت شام سے آنے والے 25 ہزار افراد کو کینیڈا میں پناہ دی جائے گی۔ یہ اعلان نو منتخب وزیرِ اعظم کی لبرل حکومت کے منصوبوں کا ایک اہم حصہ ہے۔

جس وقت یہ سبق آموز خبرکا میں مطالعہ کررہاتھا اس وقت مجھے بالی ووڈ ادا کار سلمان خان شدت سے یاد آ رہے تھے، جنہوں نے لگ بھگ ایک برس پہلے اپنی منہ بولی بہن ارپتا کی شاہی شادی کیلئے تاریخی شہر حیدرآ باد کے ہوٹل تاج فلک نما کو دو روز کیلئے بک کرالیاتھا اور اس شادی میں ملک کی ہزاروں سلبریٹیز ،سیاسی وڈیرے اور سرمایہ دار ہستیا ں موجود تھیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ پانچ ستارہ ہوٹل کا ایک دن کا کرا یہ 1کروڑ ہے، جبکہ شادی کی تقریبات کیلئے ہوٹل کو دوروز کیلئے خالی کرا کر سلمان خان نے اپنے مہمانوں کے قیام اور عیش کوشی کیلئے بک کرا لیا تھا۔حالاں کہ اسی حیدرآباد کے اندر2006میںایک  خبر مہینوں ں تک میڈیا مسالہ کے طورپر استعمال کی گئی تھی جس میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ حیدرآباد کی دو غریب لڑکیاں ثمینہ بیگم اور نازیہ بیگم کی طویل عمرعرب شہریوں سے شادی کردی گئی ۔اس شادی کو میڈیا نے نکاح کی شکل میں بیٹی کی فروخت کا ایک طریقہ قرار دیاتھا۔حالاں کہ کسی غریب بیٹی کا مذا ق اڑا نے سے قبل ملک کے بے شرم میڈ یا کو ثمینہ اور نا زیہ کے باپ کی آنکھوں میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہئے تھا کہ ملک میں جہیز کے بڑھتے ہوئے کینسر اور کمرتوڑ اخراجات نے دونوں لڑکیوں کے بوڑھے باپ کوشادی کے تصور نے ہی کتنا بے قرار رکھا ہوگا۔جبکہ میںنے خود کئی میڈیا مداریوں کی شادیاں دیکھی ہیں جس کا اہتما م صحافتی اثرو رسوخ کی وجہ سے کسی وزیر یا رکن پارلیمنٹ کی کوٹھی میں کیا گیاتھا اورجتنے کھانے برتنوں میں کتوں اورکچڑا چننے والے ننھے بچوں کیلئے چھوڑ دیے گئے تھے اس کی قیمت میں کئی غریب بہنوں کے ہاتھ پیلے کئے جاسکتے ہیں۔

ثمینہ بیگم اور نازیہ بیگم کا نکاح2006 اٹھارہ جولائی کو عمان کے دو بھائیوں محمد بن سالم اور یوسف بن سالم ثانی ابوالسعدی کے ساتھ ٹیلیفون پرہواتھا۔ دونوں ایک خوشحال زندگی کے خواب سجائے اپنے خاوندکے ہمراہ  روانہ ہوگئیں۔حیدراباد میںایک سال پہلے بھی 2006چھ سے مختلف حالات نہیں تھے ،بلکہ سلمان خان جیسے سلیبریٹیز کی کرتوت نے غریب بہنوں اوربیٹیوں کی شادیوں کیلئے اورزیادہ مسائل کردیے ہیں۔اے کاش ایک شادی میں کئی کروڑ روپے بہانے والے سلمان خان اور ان کے والدسلیم خان جنہیں گجرات کے بے گناہوں کا قتل عام،ہزاروں آبلاؤ ں آ بروریزی میں کوئی گناہ نظرنہیں آ یا اور جس ممبئی میں سلیم خان کا یہ خاندان آج اربوں کی دولت لئے بیٹھا ہے اسی ممبئی کی عشرت جہاں جسے مودی کی گجرات پولیس نے فرضی مڈ بھیڑمیں بے رحمی کے ساتھ ہلاک کردیا تھااوراس مرحومہ کی ماں آ ج تک انصاف کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہے ،مگرجس کی فطرت میں شاہوں کی غلامی رچی بسی ہو وہ کبھی حقائق کو اصلی شکل میں دیکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔سلمان خان خود چند سال قبل مظفر نگر کے مظلوموںکی لاشوں پر یوپی میں ناچ کرثابت کرچکے ہیں۔  

بہرحا ل ہمارے ملک میں فلمی ہستیوں ا و ر سلیبر یٹیز کی شادیوں میں فضول خرچی کی ناپاک روایت عام ہے ،چاہے قرینہ کیف کی شادی ہو ،یا چھوٹے بچن کی شادی سب کا معاملہ یکساں رہا ہے۔ابھی گزشتہ ماہ ملک  کے ایک بڑے کریکیٹر ہر بھجن سنگھ کی شادی کا نظارہ سارے ملک نے کیا ہے۔ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ اگران شاہی شادیوں کی تقاریب آ ر ا ستہ کرنے والوں نے اگراس طرف بھی تھوڑی بہت توجہ دی ہوتی تو آ ج ملک کی ہزاروںغریب بیٹیاں خود کو آ گ کے حوالے کرنے پر مجبو ر نہ ہوتیں۔گزشتہ دوبرس قبل امریکہ کی میگزین نے اپنی ایک سروے رپورٹ میں بتا یا تھا کہ سخاوت کے معاملے میں زیادہ مالدارلوگ کم مالداروںکی نسبت کافی پیچھے ہیں۔ اللہ ہمیں صحیح سوچنے اوراس پر عمل کی توفیق عنا یت کرے۔یاد رکھئے کہ توفیق بھی چاہت سے ہی ملتی ہے۔  

ہم اگر اپنی شادیوں کے اخراجات پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم صرف فضول خرچی کرنے کے لیے کما رہے ہیں۔ کم از کم چھ یا سات قسم کے پکوان ہوتے ہیں، سینکڑوں ہزاروں مہمانوں کی دعوت ہوتی ہے، ایک ایک لباس ہزاروں کا ہوتا ہے جو صرف ایک دن کے لیے بنوایا جاتا ہے۔ غیر شرعی رسموں کی وجہ سے ایک دوسرے کو تحفہ تحائف دینے کے چکر میں لوگ قرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جو تحفہ دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ پھر جھوٹ کا سہارا لیتاہے اور شادی سے غیر حاضر ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے جو لوگ خلیجی ممالک سے آتے ہیں یہ تک نہیں سوچتے کہ ہم جو قربانی دے کر اپنے گھر سے دور رہ کر جو کچھ کماتے ہیں اسے کس طرح ضائع کر رہے ہیں۔اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔

 اور تم اپنے رشتہ داروں کو غریب مسکینوں کو اور مسافروں کو ان کا حق دو ، مگر فضول خرچ مت کرو

(سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 26)

 فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے خدا کا ہمیشہ سے ناشکرا رہا ہے

(سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 27)

یاد رکھئے کہ اسلام میں جہیز کے مطالبہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ ہندوانہ رسم ہے جو مسلمانوں کے اندر پھیل گئی ہے۔ آج مسلم معاشرہ میں بھی یہ چیز عام ہے کہ جہیز میں جوڑے، نقد رقم، کار، موٹر سائیکل اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور جو لڑکی جہیز میں مطلوبہ چیزیں نہیں لاتی اسے طعن و تشیع سے لے کر مار کٹائی بلکہ طلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یا اسے موت کی ابدی نیند سلادیا جاتا ہے۔

غریب لوگ بھی اپنی اور اپنی لڑکی کی عزت قائم رکھنے کے لیے ادھار بلکہ سود پر رقم لیتے ہیں اور ساری زندگی اس کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں، لیکن اعلٰی قسم کا جہیز اس لیے تیار کرتے ہیں کہ ان کی لڑکی کو سسرال میں طعنے نہ سننے پڑیں اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکے اور سسرال والوں کے ظلم سے محفوظ رہے۔ اس معاملے میں ہمارامعاشرہ با لکل بے حس ہو چکا ہے، الا ماشاء اللہ۔ اس ظلم کے خلاف کوئی مؤثر کوشش نظر نہیں آتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے اللہ تعالٰی اس سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔

(ابو داؤد 4338، ترمذی 216)

(یو این این)

09891759909


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 801