donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ataul Haq Qasmi
Title :
   Shareef Khwateen Aur Ghazal


شریف خواتین اور غزل


عطاء الحق قاسمی


    بہت عرصہ پہلے میں نے ایک صاحب اصغر بن ابراہیم کا ایک مضمون ’’شریف خواتین تغزل کی غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں‘‘ کے عنوان سے پڑھا اور دل کو ٹھنڈ پڑ گئی، سو اس پر میں نے ایک کالم لکھا۔ دراصل شاعری میں غزل کی صنف خود مجھے بری طرح کھٹکا کرتی تھی کیونکہ اس میں نہ صرف خواتین کے حسن و جمال کے تذکرے ہوتے تھے بلکہ غزل کے شاعروں نے تو پردہ دار بیبیوں تک کو نہیں بخشا اور ا س طرح کے شعر کہے کہ:

داورِ حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

    چنانچہ میں دعا کیاکرتا تھا کہ یا خدا کوئی ایسا بندہ بھیج جو ان شعراء کا ’’مکو‘‘ٹھپے۔ سو خدا نے میری سنی اور اصغر بن ابراہیم نامی ایک شخص کو یہ توفیق دی کہ وہ ساری کلاسیکی اور آج کی غزل پر جھاڑو پھیریں اور یوں شاعری کے صحن کی صفائی کریں۔ موصوف نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ’’بلاشبہ غزل دائرہ اسلام سے خارج ہے ‘‘ نیز یہ کہ ’’یہ تغزل ہی کا نتیجہ ہے کہ عورتیں اپنی تعریف سننے کیلئے بے پردگی کی طرف مائل ہو رہی ہیں‘‘۔ چنانچہ اصغر بن ابراہیم صاحب نے ’’نیک سیرت عورتوں کا دینی فریضہ‘‘ یہ بتایا کہ وہ تغزل کی اس غلط روش کے خلاف اٹھائیں۔ ’’موصوف کے اس نقطہ نظر سے کسی صاحب کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ چونکہ انہیں خود شعر کہنا نہیں آتا، لہٰذا انہوں نے تمام شاعروں کیلئے اسے حرام قرار دے دیا ہے ، کیونکہ انہوں نے مضمون کے شروع ہی میں یہ وضاحت کردی ہے کہ وہ کبھی شعر کہا کرتے تھے مگر احسان دانش (مرحوم) اور جناب عبدالحکیم ثمر ( مرحوم) نے انہیں ایک خاص نصیحت فرمائی کہ فن شاعری میں اصلاح کی نسبت مجھے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس بات پر زور دیتے ہوئے یہ بھی نشاندہی کی کہ اگر مطالعہ خوب ہوجائے تو مجھے شعر گوئی میں کوئی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘‘۔ ان صاحبانِ فن کا اشارہ غالباً اس طرف تھا کہ وہ کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کریں مگر اس کی بجائے انہوں نے شاعری کے عدم جواز کیلئے شرعی دلائل ڈھونڈنے کی خاطر مطالعے کا آغاز کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگرچہ قرآن و حدیث میں شاعری کی واضح ممانعت نہیں ہے تاہم یہ جو غزل کی صنف ہے یہ بہرحال دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ اس میں ’’عورتوں سے باتیں‘‘ کی جاتی ہیں، لہٰذا انہوں نے شعر گوئی ترک کی اور ’’شریف خواتین‘‘ سے کہا کہ وہ ان کی ہمنوائی میں تغزل کی غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں۔

     میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ خود مجھے بھی غزل کی یہ صنف زہر لگتی ہے کیونکہ اس میں صنف نازک کے حسن و جمال کا بیان ہوتا ہے بلکہ اس کی آڑ میں جو گل کھلائے جاتے ہیں وہ بھی میرے علم میں ہیں۔ میرے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ایک بارکسی خاتون کے ساتھ سنیما ہال میں دیکھے گئے، چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی جمعیت کی ہائی کمان کے سامنے ہوئی اورکہاگیا ’’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ گزشتہ روز ایک بہن کے ساتھ فلم دیکھتے پائے گئے ہیں ‘‘۔ ہمارے دوست نے اس کے جواب میں اپنی صفائی پیش کی اور کہا’’جناب ہماری ایک عزیزہ فیصل آباد سے آئی تھی، وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں، چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں انہیں فلم دکھانے چلا گیا تھا!‘‘ یہ سن کو انہوں نے کہا ’’ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے ! ‘‘ اس پر میرے دوست نے ’’نظم اپنی جگہ مگر آخر غزل بھی کوئی چیز ہے ‘‘۔ خیر یہ تویونیورسٹی کے ایک طالب علم کی طفلانہ شوخی تھی مگر غزل کا شاعر خواہ باریش ہو اور عمر کی کسی بھی اسٹیج پر ہو حسن و جمال سے منہ نہیں موڑتا۔ اب اپنے مولانا حسرت مولانی ہی کو دیکھیں برصغیر کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنما ئوں میں سے ہیں۔ شرعی حلیہ ، وضع قطع ، پابند صوم و صلوٰۃ ، متقی اور پارسا مگر جب غزل کہتے تھے تو: وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پائوں آنا یاد ہے… اور … دکھتی رہی جو ان کی کلائی تمام شب‘‘  قسم کی غزلیں کہتے تھے، چنانچہ ایک بار مولانا سے پوچھا گیا کہ غزل میں تین رنگ ہوتے ہیں۔ ایک فلسفیانہ، ایک عاشقانہ اور ایک فاسقانہ، آپ کس انداز کی غزل کہتے ہیں؟ مولانا نے اپنی مخصوص باریک سی آواز میں جواب دیا: ’’فاسقانہ !‘‘ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے یہ بھی یاد آیاتھا کہ ادھر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، یعنی غزل پر کیا منحصر ہے ۔ اردو اور فارسی کی بیشتر شاعری اصغر بن ابراہیم اور ہمارے قائم کردہ اخلاقی معیار کے لحاظ سے دریا برد کرنے کے قابل ہے۔ ایک دفعہ خانقاہ گولڑہ شریف کے صاحبزادہ نصیر الدین نصیر غریب خانے پر تشریف لائے تو انہوں نے مجھے جوش کے رنگ میں کہی ہوئی اپنی ایک ’’گلبدنی‘‘ کے چند بند سنائے اور یہ بند سن کر حسب معمول میرے کان کی لویں ایک بارپھر سرخ ہوگئیں۔ میں اور برادرم اصغر بن ابراہیم دونوں بہت شرمیلے ہیں!

     تاہم اس کالم میں مقصود خود کو شرمیلا اور دوسروں کو شرمیلا ٹیگور ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اصغر بن ابراہیم کو اپنی حمایت کا یقین دلانا تھا اور ان کی ہمت بندھانی تھی کہ وہ غزل کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں تاکہ باقی شریف خواتین بھی ان کی ہمنوائی میں تغزل کے خلاف آواز اٹھائیں۔ البتہ میں نے اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ کا ذکر کیا اور وہ یہ کہ ماضی اور حال میں انتہا درجے کی شریف خواتین خود غزل کہتی رہی ہیں۔ سو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تحریک کی مخالفت سب سے پہلے شریف بیبیوں ہی کی طرف سے ہو۔ اگر ایسا ہوا تو اصغر بن ابراہیم کے ساتھ ہوں گا، کیونکہ میں ان شاعروں سے بہت تنگ آگیا ہوں جو آج کے اس سائنسی دور میں بھی انسان اور اس کے حسن و جمال کے گیت گاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے اصغر بن ابراہیم کو مشورہ دیا تھا کہ اپنی تحریک کے سلسلے میں انہیں شریف بیبیوں کی حمایت حاصل نہ بھی ہو تو وہ دل چھوٹا نہ کریں کیونکہ مجھ جیسے ’’مرد‘‘ بہرحال ان کے ساتھ ہیں!


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 851