donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abu Mateen
Title :
   Jahez Ke Nit Naye Andaz

جہیزکے نت نئے انداز

 

ابو متین


    لڑکے والوں کی ایک ایسی تعداد اب بھی موجود ہے جو علی الاعلان اپنے مطالبات کی تکمیل تک رشتہ جوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ لڑکی والوں سے مول تول اور بھائو چکانے کا مرحلہ لازماً طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہی بات آگے بڑھتی ہے۔ مرضی کے مطابق مال دستیاب نہ ہورہا ہوتو ’’ تو نہ سہی اور سہی ‘‘ پرعمل کیا جاتا ہے۔ کسی اور اونچے دروازے کو کھٹکھٹانے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتا۔ یہ لوگ علماء قائدین کی کوششوں کو بس اس حد تک تسلیم کرتے ہیں جتناہاتھی اپنے اوپر بھونکنے والے کتوں پر جاتے ہوئے نظر ڈالتا ہے۔ یہ حضرات اپنے رویے میں کوئی تبدیلی لانے کے روادار نہیں ہوتے۔ چاہے کوئی انہیں ڈھٹائی اور بے حسی کا الزام ہی کیوں نہ دے۔ مال نقد کے مقابلے میں خالی خولی باتیں کس کام کی؟ لوگ کیا خیال کریں گے کا مسئلہ ان کو پیش ہی نہیں آتا۔ پھر یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اونچے معیار کی دعوت طعام کی چکا چوند میں کس طرح اچھے اچھے لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس لئے معقول مال وصول کئے بغیر یہ سب کیونکر ممکن ہوگا؟ روپیہ پیسے کی ریل پیل کے مقابلے میں روکھا پھیکا انداز کس کام کا ؟ اس لئے لڑکی والوں سے وصولی کا یہ نادر موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے سبھی کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ اگر کسی جگہ مطالبات میں کمی کرکے رشتہ جوڑنے پر آمادگی ہورہی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ برسوں کے تجربات کی روشنی میں اس سے اچھی لڑکی اورمال دوسری جگہ کہیں بھی دستیاب نہ ہوا ہوگا ورنہ جہدوجہد مزید جاری رہ سکتی تھی۔ نئے نئے دروازے کھٹکھٹا نے کو کیا ہے ؟ اونچی سے اونچی دہلیز میں قدم بڑھانے سے کون روک سکتا ہے کیونکہ ہم لڑکے والے جو ٹھہرے ، اس اعزاز کے بل بوتے پر معاشرے نے ہمیں مقام بلند عطا کیا ہے، اس احساس سے ہمت ا فزائی ہوتی ہے۔ اس طرح ظلم وزیادتی کا غیر انسانی طرز عمل رواج پاگیا ہے جو دین میں بھی ناجائز ہے۔

    البتہ حالیہ کچھ عرصے سے تبدیلی پیدا ہوچکی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت انداز کی اور قابل تحسین قسم کی نہیں ہے بلکہ مطالبات کے شرائط پیچیدہ اور مکروفریب لئے ہوئے سامنے آرہے ہیں، اس سے لڑکی والوں کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہی ہوگیا۔ راحت کا کوئی سامان نہیں رہا ہے۔ لڑکی والوں کو اپنی بیٹی کیلئے دولہا خریدنے کی ضرورت پر مذکورہ قسم کے لوگوں سے نمٹنے میں آسانی تھی، جوبھی شرائط پیش کئے جاتے ان کی تکمیل کے لئے سردھڑکی بازی لگا کر مطلوبہ سامان فراہم کرکے دولہا خرید لیا جاتا۔ یہ طریقہ ابتدائی ہونے کی وجہ سے درست اور سیدھا تھا، اس میں کوئی ہیرا پھیری نہ تھی لیکن دور جدید میں لوگ لڑکی والوں سے زیادہ سے زیادہ مال وصول کرنے کیلئے بیشمار نت نئے طریقے نکال رہے ہیں۔آج مصلحین کو حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ اس طرح لڑکی والوں کی مشکلات اور بڑھ گئی ہیں اور اس ابتدائی صاف گوئی کے مطالبات کو یاد کرنے لگے ہیں۔ چند ایک کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
    لڑکی کی رونمائی کے وقت زنانے سے بار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کو اس قدر بڑی رقم اورجہیز دیئے کہ دولہے کا گھر بھرگیا۔ رکھنے کے لئے جگہ نہ تھی وغیرہ یا پھر بڑی بہو کو اتنی بڑی رقم گاڑی اورجہیز میں فلاں فلاں سامان دیئے اور ہم نے طلب کرنے سے پہلے ہی یہ ساری چیزیں پہنچادی تھیں، بڑے ا چھے لوگ تھے وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ بھی اچھوں میں شامل ہونے کے لئے زیادہ سے زیادہ کی فہرست تیار کرکے بتائیں خیر رونمائی کے بعد رضامندی ظاہر کی جاتی ہے اور بات کو جاری رکھنے اور کارروائی آگے بڑھانے کے لئے دلہن والے ہی جلدی کرنے لگتے ہیں اور لڑکے والے بے اعتنائی برتتے اور مسئلے کو ٹالنے اور لیت وفعل میں ڈالنے لگتے ہیں۔ پوچھنے پر مختلف بہانے سامنے آتے ہیں جیسے لڑکے کی بہن آنے والی ہے یا لڑکے کا بھائی باہر جانے والا ہے۔ بہو کی ڈیلیوری ہے وغیرہ۔ اس عرصے میں لڑکی والوں کے گھر زیادہ تر آنا جانا چلتا رہتا ہے، کبھی دولہے کی بڑی بہن دلہن کو دیکھنا چاہتی ہے تو لڑکے کے والد ہی بہو کو دیکھنا چاہتے ہیں وغیرہ۔ آئو بھگت اور ریفرشمنٹ تو مہمانوں کا حق ہوتا ہی ہے، لڑکی والے چاہتے ہیں کہ ان کے خوب نخرے اٹھائیں تاکہ رضا مندی میں کمی واقع نہ ہو۔ جب دن زیادہ ہونے لگتے ہیں تو لڑکی و الوں کو فکر وتشویش لاحق ہونے لگتی ہے۔ تب بے چینی سے لطف اندوز ہوتے فہرست طلب کی جاتی ہے۔ لڑکی والے موقع کی نزاکت کا احساس کرکے زیادہ سے زیادہ دینے کے لئے طویل فہرست تیار کرتے ہیں۔ لڑکے کے والد فہرست کو اندر لے جاکر ایک ایک آئٹم پر بحث کرکے لوٹتے ہیں اور سرسری چند بڑے آئٹم کی کمی کا ذکر کرکے فہرست لوٹا دیتے ہیں۔ اور پھر وہی خاموشی لڑکی والے لڑکے کے والد سے اصرار کرکے مطالبات کی یکسوئی کرلینا چاہتے ہیں لیکن ان کا تجاہل عارفانہ کا انداز بڑا کربناک ہوتا ہے۔ آخر نقد رقم گاڑی اور سونے میں سے کسی ایک یادوپر سرسری مطالبہ پیش کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان بڑے آیٹمس میں بڑھوتری لڑکی والوں کے لئے زیادہ تر ناقابل تعمیل ثابت ہوتی ہے۔ تھوڑی سی پس وپیش کے بعد مان لیں تو بات بن جاتی ہے ورنہ سوکھے منہ سے جواب دیا جاتا ہے کہ ہم دو سال تک شادی کرنے کے موقف میں نہیں ہیں وغیرہ۔ لڑکی والے سرپیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ الفرض موقع ومحل دیکھ کر مختلف تدبیر یں اختیار کی جاتی ہیں۔ بھولے بھالے لڑکی والے ان کو سمجھ نہیں پاتے تو لڑکی برسوں بیٹھی رہ جاتی ہے۔ کائیاں قسم کے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ لڑکے والے دراصل چاہتے کیا ہیں ؟ ان کی تعمیل میں زیادہ سے زیادہ مال کی پیشکش کرکے رشتہ پختہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح مول تول اور اصرار و انکار کی تکرار سے نکل کر چوہے اور بلی کے کھیل میں تبدیل کرنے کاسہرہ ان لڑکے والوں کے سرہے۔ لڑکی والوں سے مال بٹورنے کا مال بٹور نے کا کھیل نت نئے طریقوں سے جاری ہے۔

    جب فہرست اس قدر غیر متوقع نظر آتی ہے کہ لڑکے والوں کو مایوسی ہوجاتی ہے تب وہ اس کا اظہار بھی نہیں کرتے اور کسی ناگواری کا احساس بھی نہیں ہو پاتا لیکن لڑکی والوں کو انگوٹھا بتاکر حیران کر دیتے ہیں اور بے چارے سمجھ نہیں پاتے کہ اس ابکار کی وجہ کیا ہوگی؟ بعض اپنے انکار کا دارومدار کسی وہم پر رکھ کر ٹال دیتے ہیں اور جیسے تمہاری لڑکی سے بات پکی ہونے کے بعد لڑکے کے دادا کا انتقال ہوگیا ہے عورتیں نہیں مانتی کیا کیا جائے ؟ اگر توقع سے زیادہ کی فہرست فراہم ہوگی تو لڑکے کے باپ کا بھی انتقال ہو تو رشتہ ملتوی نہ ہوگا۔ یہ دراصل مال خوب سے خوب تر بھی آئے اور چرچا بھی نہ ہوگی کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی تدبیریں ہوتی ہیں۔


    اس جدید طرز سے دولمحوں کی خریدی کا انجام یہ بھی سامنے آنے لگا ہے کہ کچھ لوگ لڑکی کی رونمائی وغیرہ کے مرحلوں کو آنے سے قبل ایک معقول رقم ، امکان یا کاروبار و غیرہ کی پیش کش کرکے راست سارے مدارج طے کردیتے ہیں۔ اس طرح کسی شور شرابے کے بغیر چپ چپاتے معقول مال دولہے والوں کی ملکیت میں پہنچ جاتا ہے اور بات بن جاتی ہے۔ اس کے باوجواچھے لوگوں سے سماج خالی نہیں رہا ہے۔ اس ظالمانہ رسم ورواج سے دامن کش ہوکر سادہ اور بغیر شہرت والی شادیاں بھی انجام پارہی ہیں۔ یہ مثالیں نہ ہوتیں تو خدا کو کیا پڑی تھی کہ زمین پر انسان کو بسائے رکھتا ؟ لڑکے والوں کے اس غیر انسانی اور سنگدلانہ طرز عمل کے پیچھے چند محرکات ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ لڑکی والوں کو ا پنے سے کمتر اور حقیر سمجھنے کا جذبہ ہوتا ہے ۔دوسرا اس بگڑے رواج سے دوری اختیار کرنے کے لئے خدا کی ناراضی اور آخرت کی باز پرس کا تصور کمزور پڑگیا ہے۔ تیسراسبب یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی بے عملی اور عام لوگوں کی بھیڑ چال سے فائدہ اٹھانے کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ چوتھاسبب سادگی اور شرعی انداز اختیار کرنے کے بارے میں کم ہمتی اور ایثار و قربانی کا فقدان بھی ہواکرتا ہے۔ پانچواں اور آخری سبب ملت میں باہمی نظم و ضبط یا ڈسپلن قائم رکھنے کاکوئی تصور نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی اصلاح کے لئے روکنے اور ٹوکنے والوں کا نہ ہونا بھی اہم سبب ہے۔ غریب لڑکیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان کی بے راہ روی کے کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ خدا ہماری مددکرے۔


*********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 1158