donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Bihar
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me CAG Report Par Seyasat


بہار میں سی اے جی رپورٹ پر سیاست 


ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل :9431414586


    بہار میں گذشتہ تیرہ برسوں سے نتیش کمار کی قیادت والی اتحادی حکومت ہے۔ پہلے دور میں ۲۰۰۵ ء سے ۲۰۱۳ء تک نتیش کمار بھارتیہ جنتا پارٹی اتحاد کی قیادت کر رہے تھے جبکہ اس کے بعد راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اتحاد ی حکومت کی باگڈور بھی ان کے ہی ہاتھوںمیں ہے۔ نتیش کمار کا مسلسل کامیاب ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی حکومت کے تئیں بہار کے عوام الناس میں ایک بھروسہ مندی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی قیادت میں ترقیاتی کاموں میں تیزی آئی ہے اور سماجی فلاح و بہبود کی اسکیمیں اپنے نشانے کو پورا کر تی رہی ہیں لیکن حالیہ سی اے جی کی رپورٹ نے نتیش کمار کی حکومت پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال ۱۶۔۲۰۱۵ کے ترقیاتی اسکیموں کی بڑی رقم بغیرخرچ کئے واپس کرنی پڑی ہے کہ حکومت جاری کردہ فنڈ کو متعینہ مدت میں خرچ نہیں کر پائی۔ جبکہ حکومت بہار کے اکثر وزراء عوام الناس میں یہ غلط فہمی پھیلاتے رہے ہیں کہ مرکزی حکومت بہار کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنا رہی ہے اور مطلوبہ فنڈ مہیا نہیں کررہی ہے جس کی وجہ سے ترقیاتی کام نہیں ہو پارہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی اکثر عوامی جلسوں میں کہتے رہے ہیں کہ بہار میں جو بھی ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہ اپنے بل بوتے پر ہورہے ہیں اور مرکزی حکومت بہار کے لئے خصوصی فنڈ مہیا نہیں کرا رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سی ترقیاتی اسکیمیں شروع نہیں ہو رہی ہیں۔ لیکن حالیہ سی اے جی رپورٹ نے جو خلاصہ کیا ہے اس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت بہار ترقیاتی کاموں کے معاملے میں تساہلی کی شکار ہے کیو ں کہ متعینہ مدت میں سرکاری رقم خرچ نہیں ہو پارہی ہے اور اس کا نقصان عوام الناس کو ہورہا ہے کیو ں کہ اگر سرکاری اسکیمیں چل رہی ہوتیں تو ظاہر ہے کہ اس سے عوام کو ہی فائدہ پہنچتا۔ 

    بہرکیف ، اب جبکہ سی اے جی کی رپورٹ بہار قانون ساز اسمبلی و کونسل میں پیش کر دی گئی ہے تو یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سال رواں میں حکومت بہار کو ۵۱۳۴  کروڑ روپے سرینڈر کرنا پڑا ہے کیوں کہ حکومت نے وقت پر اس رقم کو خرچ نہیں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہار حکومت نے ایک لاکھ اڑتالیس ہزار تین سو بارہ کروڑ کا تخمینہ بجٹ دیا تھا اس میں سے پینتیس ہزار کروڑ مختلف اسکیموں میں خرچ نہیںہو سکے جبکہ دس ہزار پانچ سو اڑتالیس کروڑ کی خطیر رقم لیپس ہو گئی ۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومت بہار کا محکمہ ٔ تعلیم فنڈ کی کمی کا رونا روتا ہے ۔ کنٹریکٹ پر بحال اساتذہ کو وقت پر تنخواہ نہیں مل پارہی ہے جس کی وجہ سے اکثر ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں اور محکمہ ٔ تعلیم کی کئی اسکیمیں ادھوری  پڑی ہوئی ہیں لیکن محکمہ ٔ تعلیم نے سب سے زیادہ۹۲۸۲ کروڑ کی رقم واپس کی ہے۔ واضح ہو کہ اگر محکمہ ٔ تعلیم اس رقم کو وقت پر خرچ کر پاتا تو بہتیرے ایسے کام ہو جاتے جو برسوں سے نہیں ہو سکے ہیں۔ اسی طرح محکمۂ پنچایتی راج نے بھی ۷۴۱۴کروڑ کی رقم خرچ نہیں کر پائی ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ سرکاری رقم کیوں کر خرچ نہیں ہو پائی اور اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ کیونکہ اس رپورٹ سے نتیش کمار کی شبیہ بھی مسخ ہوئی ہے ۔

     گذشتہ ایک دہائی سے نتیش کمار کی نہ صرف بہار بلکہ قومی سطح پر اس بات کے لئے پذیرائی ہوتی رہی ہے کہ ان کی قیادت میں بہار برق رفتاری سے ترقی کر رہا ہے اور اس لئے عوام الناس کی نگاہ میں نتیش کمار ایک ’’وکاس پورُش‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن سی اے جی کی رپورٹ کو جب ریاست کے وزیر خزانہ جنات عبد الباری صدیقی مقننہ میں پیش کر رہے تھے تو نہ صرف حزب اختلاف کے لیڈران کو یہ موقع ہاتھ آگیا کہ وہ حکومت کو گھیر سکیں بلکہ حکمراں جماعت کے ارکان بھی حیرت زدہ تھے کہ آخر اتنی خطیر رقم کس طرح واپس ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق ۱۸۲  ایسی اسکیمیں تھیں جن میں فنڈ مہیاں کرایا گیا تھا لیکن وہ رقم خرچ نہیں کی گئی ۔ ظاہر ہے کہ اس رپورٹ نے نتیش کمار کی حکومت پر ایک بڑا سوالہ نشان قائم کر دیا ہے۔ اگرچہ اس رپورٹ میں بہت سی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کس کس محکمے کی کارکردگی کی وجہ سے ریاست کو مالی خسارہ پہنچا ہے لیکن عوام الناس میں ایک منفی رائے قائم کی جارہی ہے کہ نتیش کمار کی قیادت والی حکومت بھی عوامی کاموں کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے اور اس لئے فنڈ کی واپسی ہورہی ہے۔ حزب اختلاف کو بھی ایک سنہری موقع مل گیا ہے کہ وہ حکومت پر بہتان تراشی کر سکے ۔ جیسا کہ اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر پریم کمار نے سی اے جی کی رپورٹ پر اپنا ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب نتیش کمار کی اتحادی حکومت عوام الناس کے مسائل کے تئیں اتنی سنجیدہ نہیں ہے جتنی پہلے تھی۔ پریم کمار کا اشارہ یہ تھا کہ اب وہ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اتحاد کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ اس لئے اس برق رفتاری سے ترقیاتی کام نہیں ہو پارہے ہیں جتنا نتیش کمار بھارتیہ جنتا پارٹی اتحادی حکومت کے دوران کر رہے تھے۔ دراصل سرکاری اسکیموں کے نفاذ کا معاملہ اعلیٰ حکام کے ذریعہ ہوتا ہے اور ان دنوں بہار میں بیوروکریٹس کے درمیان بھی ایک طرح کی رسہ کشی کا ماحول ہے اور اکثر اعلیٰ آفیسر خود کو مجبور بتاتے رہے ہیں۔ نتیجہ ہے کہ فلاحی اسکیموں کا نفاذ بر وقت نہیں ہوپارہا ہے اور سرکاری فنڈ سرینڈر ہورہے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کی سی اے جی رپورٹ پہلے بھی پیش کی جاتی رہی ہیں اور اس پر بھی تبصرہ ہوتا رہا ہے لیکن اس بار کی رپورٹ کی سیاسی اہمیت قدرے بڑھ گئی ہے کہ حزب اختلاف نتیش کمار کو نشانہ بنا رہی ہے کہ جب ریاست میں ترقیاتی کام کو بروقت پورا نہیں کیا جارہا ہے تو مرکز سے مزید خصوصی رقم کا مطالبہ کیا معنی ٰ رکھتا ہے؟ بلا شبہ یہ ایک ایسا سوال ہے جو جس کا جواب نتیش حکومت کے لئے مشکل تو نہیں لیکن عوام الناس میں منفی اثرات مرتب ضرور کریں گے جو نتیش کما رکی شبیہ کے لئے بھی مضر ہے اور بہار کی سیاست کے لئے بھی ۔بالخصوص اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو بھی بڑی کامیابی ملی ہے اس کے بعد بہار میں بھی اس کا حوصلہ بلند ہوا ہے اور اب بات بات پر وہ حکومت بہار کو گھیرنے میں لگی ہے۔ ایسے وقت میں سی اے جی رپورٹ کا خلاصہ نتیش کمار کی حکومت کے لئے درد ِ سر ضرور ثابت ہورہا ہے۔ چونکہ اب اتحادی جماعت راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے بھی کئی لیڈران نتیش کمار کی نکتہ چینی کرنے لگے ہیں ، اس سے بھی حزب اختلاف کو موقع مل گیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو نشانہ بنائیں۔ بالخصوص راشٹریہ جنتا دل کے سینئر لیڈر و سابق مرکزی وزیر رگھوونش پرساد سنگھ نے تو ایک طرح سے نتیش کمار کے خلاف مورچہ ہی کھول رکھا ہے ۔ اگرچہ لالو پرساد یادو اور ان کے بیٹے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے رگھوونش پرسا دسنگھ کے بیان کی مذمّت کی ہے لیکن خود لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو نے گذشتہ کل اپنی رہائش پر منعقد  ارکانِ پارٹی کی میٹنگ میں جس طرح آئندہ پارلیمانی انتخاب بغیر اتحاد کے لڑنے کی تیاری کا اشارہ دیا ہے ، اس سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ اب اتحاد کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتحادیوں کے درمیان اس طرح کی رسّہ کشی چلتی رہی تو نہ صرف حکومت کی کارکردگی متاثر ہوگی بلکہ عوام الناس میں بھی ایک غلط پیغام جائے گا اور اس کا فائدہ حزب اختلاف کو حاصل ہوگا۔ اس لئے سی اے جی کی رپورٹ پر حکومت کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنی چاہئے اور عوامی فلاح و بہبود کی اسکیموں کے نفاذ کے تئیں سنجیدہ اقدام اٹھانے چاہئے جس سے عوامی مسائل کا حل ممکن ہو سکے اور ساتھ ہی ساتھ نتیش کمار کی ساکھ بھی مستحکم رہ سکے۔  


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 497