donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Bihar
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar : Lalu Ki Lalkar, Kis Chaurahe Par Milenge Wazeer Azam


بہار: لالو کی للکار، کس چوراہے پر ملینگے وزیر اعظم 


ڈاکٹر مشتاق احمد 


بہار کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تقریبا تین دہائی سے یہاں کی سیاست لالو یادو کے ارد گرد گھومتی رہی ہے ۔ نوے کے بعد پندرہ برسوں تک لالو اور رابڑی دیوی کی حکومت رہی تو پھر دس برسوں تک نتیش کمار نے جب بھاجپا سے مل کر دوہزار پانچ میں حکومت بنائی اس کے بعد بھی کسی نہ کسی طور پر لالو یادو کی آواز قائم رہی ۔ اب جب کہ ایک بار پھر نتیش کمار اور کانگریس اتحاد کی حکومت میں لالو یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر شامل ہے تو پھر حکومت کا سیارہ لالو کے ارد گرد ہی گھوم رہاہے۔ کہ اس حکومت میں ان کے دونو ں لعل نہ صرف شامل ہیں بلکہ بحیثیت کابینہ وزیر غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس لئے حزب اختلاف کی پارٹیاں نتیش پر یہ الزام بھی لگاتی رہی ہیں کہ حکومت میں لالو یادو کا عمل دخل قدرے زیادہ ہے ، لیکن سچائی یہ ہے کہ  وہ اس حکومت میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا فرض نبھا رہے ہیں اور اس لئے وقتا فوقتا حکومت کی کار کردگی پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں تک نتیش کمار کے رویے کا سوال ہے تو ان کوبھی قریب سے جاننے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ وہ کسی دبائو میں کام کرنے والے لیڈر نہیں ہیں ، البتہ انہوں نے اکثر یہ موقف ظاہر کیا ہے کہ اتحادی حکومت میں اتحاد دھرم نبھانا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے بھی اس طرح کے سیاسی بیانات آتے رہے ہیںکہ جس سے کبھی کبھی یہ غلط فہمی بھی ہوتی رہی ہے کہ اتحاد کے اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا کھیل چل رہاہے ۔ خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی اس افواہ کو اور ہوا دیتی رہی ہے ۔ لیکن اس اتحاد نے بھی اکثر اپنے متحد ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اس طرح اب تک نتیش کمار کی قیادت میں حکومت چل رہی ہے ۔ مگر حالیہ نوٹ بندی کے بعد ملک میں جو سیاسی فضاء تبدیل ہوئی ہے اس سے بہار کی سیاست قدرے زیادہ متاثر ہوئی ہے ۔ کیونکہ شروع سے ہی نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے جب کہ اتحاد کی کانگریس پارٹی اور راشٹریہ جنتادل مخالف رہی ہے ۔ اب جب کہ نوٹ بندی کے پچاس دن پورے ہونے والے ہیں اس کے باوجود عوام الناس کی پریشانیوں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے تو لالو پرساد یادو کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور وزیر اعظم کو للکار نے لگے ہیں کہ وہ کس چوراہے پر ملیں گے ؟ واضح ہوکہ آٹھ نومبر کو وزیراعظم نے پرانے ہزار اور پانچ سو روپئے کے نوٹ کی پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے عوام مجھے پچاس دن دیں اگر اس کے بعد کوئی مسئلہ درپیش رہتا ہے تو عوام جس چوراہے پہ چاہے سزا دے سکتی ہے ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ پچاس دنوں کے بعد بھی متوسط طبقے اور کسان مزدور کے مسائل برقرار ہیں بلکہ کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ کیونکہ ان کی فصل کا خریدار نہیں ہے ۔ اس موسم میں کسانوں کو سبزی کی پیداوار سے اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی لیکن ان کے کچے ٹماٹر ، پھول گوبھی ، پالک ، آلو اور پیاز کھیتوں میں پڑے ہوئے ہیں ، سبزی منڈیوں میں انہیں اتنا پیسہ بھی نہیں مل پارہاہے جتنا انہوں نے کھیتی میں لگایا تھا ۔ اسی طرح فٹ پاتھ کے دکان دار نوٹ بندی کی وجہ سے بھوک مری کے شکار ہوگئے ہیں ۔ چھوٹی صنعت بھی بند ہوکر رہ گئی ہے ، جس سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں ، اس لئے قومی سطح پر یہ آواز بلند ہونے لگی ہے کہ مرکزی حکومت کا فیصلہ غیر دانشمندانہ اور عوام مخالف ہے ، کیونکہ جس کالے دھن پر روک لگانے کیلئے یہ قدم اٹھانے کی دلیل بھاجپا حکومت دے رہی ہے وہ ملک کے اکثریت کے گلے سے نیچے نہیں اتر رہی ہے ۔ کیونکہ نوٹ بندی کے بعد جس طرح نئے ہزار اور پانچ سو کی کالا بازاری کا فروغ ہواہے اس سے تو یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کالا دھن والوں کے سامنے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ ملک میں سیکڑوں جگہوں پر کڑورں کے نئے نوٹ کی برآمدگی تو یہی ثابت کرتی ہے کہ ملک میں جو چند بڑے  صنعتی گھرانے ہیں ان پر اس نوٹ بندی کا اثر نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ مزدور  اور کسان طبقے کے لوگوں کو ہی بینک کی قطاروں میں جان گنوانی پڑی ہے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک ایک سو سترہ افراد کی موت ہوچکی ہے ۔ ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں ہی نہیں بلکہ گائوں دیہات میں بھی لمبی قطاریں اب بھی دکھائی دے رہی ہیں ۔ غرض کہ اس نوٹ بندی نے متوسط طبقے کی معاشی حالت کو نہ صرف بدتر کردیا ہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی اثر اندازکیا ہے ۔ اس لئے ایک طرف کانگریس کے راہل گاندھی اور ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی نے مرکزی حکومت بالخصوص نریندر مودی پر حملہ تیز کردیاہے تو دوسری طرف لالو پرساد یادو نے ایک لمبی لڑائی لڑنے کا اعلان کردیا ہے ۔ جس کی شروعات انہوں نے اٹھائیس دسمبر کے ریاست گیر دھرنے ومظاہرے سے کیا ہے ۔ واضح ہوکہ لالو پرساد یادو نے اپنے اعلانیہ پروگرام کے مطابق خود پٹنہ میں ایک روزہ دھرنا پر بیٹھے تو ان کی پارٹی کے کارکنان ولیڈران ضلع ہیڈ کوارٹروں اور بلاک سطحوں پر دھرنے دئے ۔ لالو یادو نے اپنے خطاب میں جس طرح نریندر مودی کو للکارا ہے اس سے ان تمام لوگوں کو ایک طاقت ضرور ملی ہے جو مرکز کی اس نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف متحرک ہیں ۔ 

جہاں تک بہار میں اتحاد کے دیگر لیڈران بالخصوص نتیش کمار کی الگ سیاسی راہ کا سوال ہے تو اس سے لالو یادو کی لڑائی کمزور ہونے والی نہیں ہے کیوںکہ کانگریس اس دھرنے میں شامل تو نہیں ہوئی لیکن اخلاقی تائید ضرور کی ہے ۔ جیساکہ کانگریس کے ریاستی صدر و حکومت میں وزیر تعلیم ڈاکٹر اشوک چودھری نے کہا ہے کہ نوٹ بندی سے ہونے والی پریشانیوں کے خلاف کانگریس عوام کے ساتھ ہے اور لالو یادو کی تحریک بھی عوامی مسائل کو دور کرنے کیلئے شرع کی گئی ہے اسی لئے ہم ان کی حمایت اپنے پارٹی فورم سے کرتے رہیں گے ۔ چونکہ نتیش کمار نوٹ بندی کے اعلان کے پہلے دن سے اس کی حمایت کر تے آرہے ہیں اس لئے وہ اب بھی نریندر مودی کی حمایت میں ہیں ۔ البتہ ان کی پارٹی کے ریاستی صدر کا موقف ہے کہ پچاس دنوں کے بعد پارٹی اس مسئلے پر غور وخوض کے بعد جنتا دل متحدہ کوئی فیصلہ لے گا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نتیش کمار اس نوٹ بندی کی سیاست میں خود کو ایک چمپین کے طور پر نمایاں ہونا چاہتے ہیں اور اپنے اتحادی سیاسی جماعت کانگریس و راشٹریہ جنتا دل پر نفسیاتی دبائو بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ غرض کہ نتیش کمار کا نریندر مودی کی حمایت میں ان کے دور اندیش سیاسی مقاصد کے راز پوشیدہ ہیں کہ اگر حکومت سے لالو یادو یا کانگریس الگ ہوتی ہے تو ان کے لئے این ڈی اے کے دروازے کھلے رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں مرکزی حکومت بھی بہار کے تئیں قدرے فراخ دلی کا مظاہرہ کررہی ہے اور نتیش کمار کے دیرینہ مطالبے خصوصی پیکج پر بھی توجہ دے رہی ہے ۔ دراصل قومی سطح پر جس طرح کانگریس اور ممتا بنرجی نے مودی کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے اور اب لالو یادو بھی اپنے پرانے تیور کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں تو ایسے وقت میں نتیش کمار واحد غیر بھاجپائی وزیر اعلی ہیں جو مودی کی حمایت میں ہیں اس لئے بھاجپا بھی چاہتی ہے کہ نتیش کمار کو کسی بھی صورت میں اپنے دائرے میں رکھا جائے جس سے ایک طرف بہار میں لالو کی آوازو کم کیا جائے ، دوسری طرف مثال کے طور پر بھاجپا یہ کہ سکے کہ لالو کے اتحادی بھی ان کے ساتھ نہیں ہیں ۔ ظاہر  ہے سیاست کی بساط پر اس وقت شطرنجی چال چلی جارہی ہے جس کا شکار بہار کی سیاست بھی ہے لیکن لالو یادو بھی ہندوستان کی سیاست میں لمبی ریس کے گھوڑے کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ گرتے بھی ہیں اور پھر میدان بھی جیتتے رہے ہیں ۔ اس لئے نتیش کمار کی الگ راہ بھاجپا کے لئے وقتی توانائی کا باعث ضرور ہے لیکن لالو یادو کی سیاست کے لئے حوصلہ شکن نہیں کہ ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح بہار کے عوام بھی نوٹ بندی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔اور لالو یادو بھی لوگ باگ کی نبض شناسی کے بعد ہی اس طرح کھل کر میدان میں آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بھاجپا لالو یادو پر بہتیرے الزام تراشی کر رہی ہے لیکن عوام اسے یکسر نظرانداز کر رہی ہے جو لالو یادو کے مستقبل کی سیاست کے لئے مفید ہے۔

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 296