donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Notebandi Ka Toofan, Samajwadi Ghamasan Aur UP Ka Musalman


نوٹ بندی کا طوفان، سماج وادی گھمسان

 

اور یوپی کا مسلمان؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی 


ناخدانے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا،  پار اترنے نہ دیا


    نوٹ بندی کا اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر کیا اثر پڑے گا؟ بی جے پی کو اس کا فائدہ ملے گا یا عوام لائنوں میں کھڑے کئے جانے کا بدلہ مودی سرکار سے لیںگے؟ اس سوال کا جواب بعد میں ملے گامگر اس سے پہلے ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات سماج وادی پارٹی، کانگریس، آرایل ڈی مل کر لڑینگی یاالگ الگ؟مگر اس سے بھی پہلے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی خود کو متحد رکھتے ہوئے انتخابی دنگل میں اترے گی یاخیموں میں بنٹ کر اپنے ہی لوگوں کو ہرانے کا کام کرے گی؟ اسی کے ساتھ یہ بھی سوال ہے کہ جس مسلم ووٹ پر ڈورے ڈالنے کے لئے تمام مبینہ سیکولر پارٹیاںکوشاں ہیں وہ کدھر جائے گا؟ کیا وہ بھی ان جھگڑوں کا شکار ہوکر منتشر ہوجائے گا یا بہار کے ووٹروں کی طرح متحد ہوکر ان قوتوں کو سبق سکھائے گا جو سماج کو تقسیم کرنے کا کام کرتی ہیں اور مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں؟ ان تمام سوالوں کا یوپی کے الیکشن نتائج پر اثر پڑے گا اور 2019کا رخ بھی ان سوالوں کے جواب طے کریںگے۔

پہلے نوٹ پھر ووٹ

    مرکز کی مودی سرکار کے لئے نوٹ بندی سردرد بن گئی ہے اور بی جے پی کے لیڈران جہاں جاتے ہیں، ان سے عوام کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ پہلے نوٹ لائو پھر ووٹ مانگو۔ اس صورت حال سے آرایس ایس بھی پریشان ہے جو برسوں پہلے سے یوپی میں بی جے پی کے حق میں زمین تیار کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے بار بار کہا جارہاہے کہ نوٹ بندی کے ذریعے اس نے کالے دھن پر روک لگانے کا کام کیا ہے۔ظاہر ہے کہ یوپی چنائو نوٹ بندی کے فیصلے کا امتحان بھی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ عوام اپنی پریشانیوں کا بدلہ اور ان موتوں کا حساب لیںگے جو نوٹ بندی کے سبب ہوئی ہیں۔ البتہ یوپی میں بی جے پی کی شکست تب ہی ممکن ہے جب تمام بی جے پی مخالف قوتیں ساتھ مل کر چناوی دنگل میں اتریں۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ مایا اور ملائم ساتھ آنے کو تیار نہیں۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد کھٹائی میں نظر آرہا ہے اور خود سماج وادی پارٹی میں خانہ جنگی چل رہی ہے جس کے اختتام کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

سماج وادی گھمسان

    سماج وادی پارٹی کے دو خیموں میں کئی مہینوں سے چپقلش کی خبریں آرہی تھیں۔ کچھ دن پہلے بہ ظاہر جنگ بندی کا اعلان ہوگیا تھا مگر اب امیدواروں کے انتخاب کے نام پر ایک بار پھر جنگ تازہ ہوگئی ہے۔ یوپی اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے ٹھیک پہلے ریاست کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے اپنے امیدواروں کی فہرست پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو کو سونپی ہے۔ اکھلیش نے اپنی طرف سے تمام 403 امیدواروں کی فہرست ایس پی سپریمو ملائم سنگھ کے حوالے کی۔یہ خبر اس لئے بھی چونکاتی ہے کیونکہ یوپی میں سماجوادی پارٹی کے صدر شیو پال یادو ہیں اور امیدوار طے کرنا ان کا کام ہے لیکن یہ کام اکھلیش نے ہی کر دیا ہے،اس کا مطلب صاف ہے کہ خاندان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یوپی انتخابات میں اکھلیش یادو سماج وادی کے سب سے بڑے چہرے کے طور پر پیش کئے جا رہے ہیں، لیکن چاچا شیو پال یادو نے ہی بھتیجے کے وزیر اعلی کے عہدے کی امیدواری پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب الیکشن سر پر ہے تو کیا اس بیچ چچابھتیجا کی جنگ پھر شروع ہو چکی ہے؟ خاص بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب اکھلیش یادو نے والد ملائم سنگھ اور چچا شیوپال یادو کے خلاف بغاوتی تیور دکھائے تھے تب شیوپال یادو نے ایک طرح سے اکھلیش کے سامنے سرینڈر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر حالت میں سی ایم اکھلیش یادو ہی ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق، اس بار ٹکٹ تقسیم میں ملائم سنگھ اور شیو پال یادو کی چل رہی ہے، کیونکہ ملائم سنگھ پارٹی کے قومی صدر ہیں، وہیں شیو پال یادو یوپی سماج وادی پارٹی کے صدر ہیں۔ ایسے میں اگر شیو پال یادو کے پسندیدہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں تو پھر اراکین اسمبلی کی میٹنگ میں شیو پال یادو کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے اور اکھلیش کی کرسی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکھلیش یادو مطالبہ کر رہے ہیں کہ جب انتخابات ان کے نام اور کام کی بنیاد پر لڑا جانا ہے تو پھر ٹکٹ بانٹنے میں انہیں حق ملنا چاہئے لیکن شیو پال یادو ہر بار ملائم سنگھ کا نام آگے کرکے اکھلیش یادو کی اس مانگ کو درکنار کر دیتے ہیں۔ بہرحال یادو خاندان کی اس جنگ کو دیکھتے ہوئے بشیربدر کا ایک شعر یاد آتا ہے:

چند رشتوں کے کھلونے ہیں جنھیں ہم کھیلتے ہیں
ورنہ سب جانتے ہیں کون یہاں کس کا ہے؟

ہم ساتھ ساتھ ہیں۔۔؟

    بی جے پی کی جیت کا سبب اکثر وبیشتر سیکولر ووٹوں کا انتشار ہوتا ہے۔ یوپی میں کوشش ہورہی تھی کہ سیکولر پارٹیاں ساتھ آجائیں۔سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کی قیاس آرائیاں چل رہی تھیں جسے اب ملائم سنگھ یادو نے مسترد کر دیا ہے۔ ملائم سنگھ یادو نے کہا کہ پارٹی کسی سے کوئی اتحاد نہیں کرے گی اور اکیلے الیکشن لڑے گی۔اکھلیش یادو اور شیو پال یادو کیمپ کی جانب سے مسلسل یہ کہا جا رہا تھا کہ اتحاد پر نیتا جی فیصلہ لیں گے۔ ماضی میں اکھلیش یادو کی جانب سے اتحاد کا اشارہ دیا جاتا رہا ہے اور امر سنگھ وپرشانت کشور کی ملاقاتوں کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ اکھلیش یادو کیا کرتے ہیں کیونکہ اکھلیش یادو مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کانگریس سے سمجھوتہ ہوا تو 300 سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔ اس سے پہلے یوپی کانگریس کے صدر راج ببر اور آر ایل ڈی کے سربراہ اجیت سنگھ کی طرف سے بھی بیان آچکا ہے کہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد نہیں ہورہا ہے۔ بہر حال ان بیانات کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہئے۔ ابھی بھی امید کی کرن باقی ہے  اورممکن ہے یہ سب ایک دوسرے پر دبائو بنانے کے حربے ہوں،شاید آخری وقت میں یہ پارٹیاں اتحاد کے راستے پر آجائیں۔

کس کے ساتھ ہیں مسلمان؟

    اترپردیش میں کس پارٹی کا کس کے ساتھ اتحاد ہوگا اور اس صورت میں مسلمان کا ووٹ کس کے ساتھ جائے گا؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ مسلمان ووٹ ریاست میں بیس فیصد کے آس پاس ہے اور یہ کسی بھی پارٹی کی جیت ہار میں اہم کردار نبھاتا ہے۔فی الحال یہ سوال اس لئے بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ مسلمان سبھی پارٹیوں کی ریلیوں میں نظر آرہے ہیں، سب کی تقریریں سن رہے ہیں مگر اپنے سیاسی رجحان کو ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ البتہ انھیں اپنی جانب راغب کرنے کی تمام پارٹیاں کوشش کر رہی ہیں۔

سو سو امید بندھتی ہے اِک اِک نگاہ پر
مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی

    پچھلی بار سماج وادی پارٹی نے مسلمانوں سے بہت سے وعدے کئے تھے مگر ان وعدوں کی تکمیل کی جانب اس نے کوئی قدم نہیں بڑھایا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو بیس فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس وعدے کو کبھی بھول کر بھی نہیں دہرایا۔ اسی طرح بہوجن سماج پارٹی لاکھ مسلمانوں کی حمایت میں بڑی بڑی باتیں کرے مگر اس کے بی جے پی کے ساتھ جانے کے امکانات ہمیشہ بنے رہتے ہیں لہٰذا مسلمان اسے شک وشبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔یوپی کے عام مسلمان نہ تو سماج وادی پارٹی کو مسلمانوں کا ہمدرد سمجھتے ہیں اورنہ بہوجن سماج پارٹی کو مسلمانوں کے درد کا مداوا مانتے ہیں مگر موجودہ صور ت حال میں بی جے پی کو روکنے کے لئے ان کا غالب رجحان سماجو ادی پارٹی کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔ یادو پریوار کے جھگڑوں نے انھیں کشمکش میں ضرور مبتلا کیا تھامگر اب ایسا لگتا ہے کہ مسلمان وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔خود سماج وادی پارٹی کے پرانے یادوووٹر بھی اکھلیش کے ہی ساتھ آگئے ہیں۔ حالانکہ مظفرنگر دنگوں اور لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال نے انھیں حکومت سے ناراض بھی کیا ہے مگران کے سامنے ایس پی اور بی ایس پی میں سے کسی ایک کوچننے کا مسئلہ ہے،اور اس میں سماج وادی پارٹی بھاری پڑ رہی ہے۔خاص طور پر مشرقی یوپی کا مسلمان کھل کر ایس پی کے ساتھ آرہا ہے اور قومی ایکتا دل کے ایس پی میں انضمام کا فائدہ بھی اسے مئو اور اس کے آس پاس علاقوں میں مل سکتا ہے مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تمام مسلمان سماج وادی پارٹی کے ساتھ جائینگے۔

 مسلمانوں پرمایا 

    یوپی میں مسلم ووٹ کو اپنے ساتھ لانے کے لئے بی ایس پی لیڈر مایاوتی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔سب سے زیادہ انھوں نے ہی مسلمان امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔وہ اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں کہ’’ یوپی میں ہم حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ یوپی میں مسلم ووٹرس انتہائی فیصلہ کن ہوتے ہیں اور دلت + مسلم اتحاد ایک نئی سیاسی عبارت لکھ سکتا ہے۔ ‘‘اسی کے پیش نظر وہ مسلمانوں کو سمجھانے میں مصروف ہیں کہ اگر وہ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں، تو انہیں بی ایس پی کے ساتھ آنا ہوگا کیونکہ بی جے پی کو بی ایس پی ہی اقتدار میں آنے سے روک سکتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ مسلمان اور دلت مل کر چالیس فیصد سے زیادہ ہوجاتے ہیں مگر عام مسلمان کو اندیشہ ہے کہ اگر مایاوتی کو اکثریت نہیں ملی تو وہ سرکار بنانے کے لئے بی جے پی سے ہاتھ ملاسکتی ہیں،جیسا کہ انھوں نے ماضی میں کیا ہے۔ حالانکہ اس کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ بی ایس پی کے بہت سے امیدوار مسلم ووٹ لینے میں کامیاب ہونگے، خاص طور پر مغربی یوپی میں۔

 مغربی یوپی کا مسلمان کدھر جائے گا؟

    مغربی اترپردیش میں مسلم ووٹ، اکثرمایاوتی کے ساتھ جاتا رہا ہے۔اس کے علاوہ وہ آر ایل ڈی کے ساتھ مل کر بھی جاٹوں کے ساتھ اپنا اتحادبناتا رہا ہے مگر اب یہاں حالات بدلے نظر آرہے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اوراگرکہیں دلتوں کے ساتھ مل کر وہ بی ایس پی کو جیت دلاتے ہیں تو کہیں جاٹوں کے ساتھ اتحاد قائم کرکے وہ جیت کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے سب سے زیادہ مسلمان اسمبلی میں پہنچتے ہیں مگر ابھی تک کی جو زمینی صورت حال ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مسلمان سماج وادی پارٹی کی طرف جھکائو رکھتے ہیں،حالانکہ یادو ووٹ کے ساتھ مل کر یہاں مسلمان، سماج وادی پارٹی کو جیت نہیں دلاسکتے۔ یہاں اگر سماج وادی پارٹی آرایل ڈی کے ساتھ بھی آجاتی ہے تو مشکل لگتا ہے کہ مسلمان،جاٹوں کے ساتھ اتحاد کریں کیونکہ مظفرنگر دنگوں کا زخم ابھی بھرا نہیں ہے۔یہاں سب سے بڑا چیلنج جاٹ اور مسلم ووٹروں کو ایک ساتھ لانے کا ہے۔ مظفرنگر فسادات کے بعد آر ایل ڈی کا یہ قدرتی ووٹر بٹ گیا ہے۔ آر ایل ڈی مغربی یوپی میں اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریگی مگر یہ خلا پر ہوتا نظر نہیں آتا۔جاٹ اور مسلم ووٹ کے سہارے ہی اجیت سنگھ اپنے امیدواروں کو جتاتے رہے ہیں لیکن، مظفرنگر فسادات کے بعد 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں چودھری اجیت سنگھ بھی باغپت سے الیکشن ہار گئے تھے۔  2014 کے لوک سبھا انتخابات میں انتہائی مایوس کن کارکردگی پر قابو پانے کی کوشش میں اجیت سنگھ نے ’’جاٹ سوابھیمان‘‘ کا سہارا لیا ہے اور اس میں کامیاب ہوتے بھی نظر آتے ہیں۔ دہلی میں چودھری چرن سنگھ کا بنگلہ خالی کروانے،اور ریزرویشن جیسے مسائل کو لے کر اجیت سنگھ کے تئیں جاٹ برادری میں ہمدردی ہے۔حالانکہ اس کے باوجود وہ مغربی یوپی میں مسلم ووٹ کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ مظفرنگر فسادات کے بعد جاٹ، مسلم کمیونٹی کے درمیان آئے فاصلوں کو پاٹنے کے لئے بھی اجیت سنگھ پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مسعود احمد کو آر ایل ڈی کا ریاستی صدر بنانے کے بعد مغربی اتر پردیش میں پارٹی کی ہر ریلی میں اسٹیج پر مسلم رہنماؤں کو بھی توجہ دی جا رہی ہے مگر اب تک اس کا کوئی بڑا فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ میرٹھ یونیورسٹی کے ریٹائر پروفیسر ڈاکٹر آر پی سنگھ کہتے ہیں کہ’’ سیاسی طور پر جاٹ ووٹر تبھی متاثر کن ہوتا ہے جب یہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ووٹ کرتا ہے۔‘‘ادھرگزشتہ لوک سبھا انتخابات میں باغپت کو چھوڑ کر جاٹ لینڈ کی تمام دو درجن لوک سبھا سیٹوں پر جاٹ برادری کا ووٹ پانے والی بی جے پی کے لئے یوپی کا اسمبلی انتخاب مشکل ہو چکا ہے۔ آل انڈیا جاٹ ریزرویشن سنگھرش سمیتی کے صدر یشپال ملک بتاتے ہیں کہ جاٹ ریزرویشن کے معاملے پر مرکزی حکومت کے موقف سے ناراضگی ہے۔ اس بار اسمبلی انتخابات میں جاٹ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے ووٹ کریں گے۔

    اجیت سنگھ دوبارہ اپنے ٹوٹے ووٹ بینک کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں ، آر ایل ڈی اپنا فائدہ دیکھ رہی ہے مگر سماج وادی پارٹی فی الحال اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ آخری وقت تک سیاسی پارٹیوں کی مورچہ بندی میں کیا فرق آئے گا ، یہ کوئی نہیں جانتا۔لوک سبھا الیکشن میں جاٹوں نے بی جے پی کو ووٹ کیا تھا مگر ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم اگرچہ آر ایل ڈی سے دور ہوں، لیکن اب جاٹ اس کے ساتھ آرہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم اور یادو ووٹ بینک ایس پی کے ساتھ ہے۔ تاہم بی جے پی اور بی ایس پی بھی مغربی یوپی کو لے کر سنجیدہ ہیں۔ بی ایس پی نے مظفرنگر فسادات کے بعد ناراض ہوئے مسلمانوں کو اپنے حق میں کرنے کے لئے وہاں زیادہ سے زیادہ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ جب کہ بی جے پی ہندو ووٹ کو اپنے ساتھ بنائے رکھنے کے لئے فرقہ وارانہ ایشوز کو لگاتار اٹھا رہی ہے اور الیکشن سے پہلے کوئی ناپسندیدہ واقعہ ہوجائے تو کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئے۔

یہ کیسی سیاست ہے مرے ملک پہ حاوی
انسان کو انساں سے جدا دیکھ رہا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 671