donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Assembly Zimni Intekhab Ka Natija Aur Musalman


!بہار اسمبلی ضمنی انتخاب کا نتیجہ اور مسلمان


(٭ڈاکٹر مشتاق احمد، (دربھنگا

موبائل:09431414586

 ای میل:rm.meezan@gmail.com

    پارلیامانی انتخاب کے نتائج کے بعد قومی سطح پر سنگھ پریوار یہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ پورے ملک میں اب بھی مودی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اگر کہیں بھی اسمبلی انتخاب ہوگا تو اس میں بھی پارلیامنٹ کی طرح ہی نتیجہ آئے گا۔ دراصل سنگھ پریوار کو دیگر سیاسی جماعتوں کی صف میں جو انتشار ہے اس کی بنیاد پر جو فائدہ ملا تھا اس سے اس کا حوصلہ بڑھنا فطری عمل تھا کیوں کہ محض 31فی صد ووٹ حاصل کر بھاریہ جنتا پارٹی نے جتنی سیٹیں حاصل کیں وہ اس کے بھی وہم وگمان میں نہیں تھا۔ مگر شاید سنگھ پریوار کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان کی مٹی کبھی بھی جذباتی پودوں کی آبیاری نہیں کرتی ۔ یہی وجہ ہے کہ محض تین مہینے کے بعد ہی قومی سطح پر بھاجپا کی ہوا اکھڑنے لگی ہے اور اس مدت میں جہاں کہیں بھی ضمنی انتخاب ہوا ہے وہاں بھاجپا کو اپنی زمین کھونی پڑی ہے۔ مثلاً کرناٹک میں تین اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہوا تھا وہاں کانگریس کے حصے میں دو اور بھاجپا کے حصے میں ایک سیٹ آئی ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں کانگریس کو ایک اور پنجاب میں بھی کانگریس کو ایک سیٹ آئی ہے۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں دس سیٹوں پر ضمنی اسمبلی انتخاب ہو اتھا ان میں بھاجپا کے حصے میں محض چار سیٹیں آئی ہیں جب کہ چھ سیٹیں جنتا دل یو، راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اتحاد کو ملا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اسمبلی حلقے میں حالیہ پارلیامانی انتخاب کے وقت بھاجپا کو اکثریت ملی تھی اس ضمنی انتخاب میں وہاں اسے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ مثلاًچھپرہ اسمبلی حلقہ میں پارلیامانی انتخاب کے وقت بھاجپا کو 81291ووٹ ملا تھا جب کہ اس ضمنی انتخاب میں بھاجپا تیسرے نمبر پر رہی اور وہاں راجد کا امیدوار 59069ووٹ لا کر کامیاب ہو گیا۔
    واضح ہو کہ جن دس سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہوا ہے ان میں چھ سیٹوں پر بھاجپا کا قبضہ تھا لیکن اس انتخاب میں بھاجپا کو دس سیٹوں میں محض چار سیٹیں مل پائیں او ر وہ بھی دو سیٹیں تو ہزار سے بھی کم ووٹ کے فاصلے کی وجہ سے ملا ہے ۔ اگر جنتا دل متحدہ اور راجد تھوڑی سی کاوش اور کرتے تو ممکن تھا کہ بھاجپا کا صفایا بھی ہو سکتا تھا۔بہر حال جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ بھی بھاجپا کے لئے حوصلہ شکن ہے اور یہ حقیقت اجاگر ہوگئی ہے کہ اب کہیں بھی مودی کا جادو نہیں ہے اور پارلیامانی انتخاب کے وقت جو سبز با غ عوام کو دکھایا گیا تھا وہ محض تین مہینے میں پول کھول ثابت ہوا ہے اور عوام اب یہ اچھی طرح سمجھ گئی ہے کہ ان کے اچھے دن آنے والے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ دن پہلے اترانچل میں بھی تین سیٹوں پر ضمنی انتخاب میں کانگریس کو ہی کامیابی ملی تھی اور حالیہ بہار ، مدھیہ پردیش، پنجاب و کرناٹک کے ضمنی انتخاب میں بھاجپا کی ہوا نکل گئی ہے ۔بالخصوص بہار میں جنتا دل متحدہ یعنی نتیش کمار اور راشٹریہ جنتا دل یعنی لالو پرشاد یادو کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے اور جس میں کانگریس بھی شامل ہے اس سے سیکولر فورس کو وہ تقویت حاصل ہوئی ہے اور اگر اس ضمنی انتخاب سے سبق لے کر یہ سیکولر اتحاد اپنی کچھ کمیوں کو دورکرلیں تو بہار کی سرزمین بھاجپا کے لئے تنگ ہو سکتی ہے۔جیسا کہ سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار اس بات کو دہراتے رہے ہیں کہ بہار میں فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اگر ماضی میں اس طرح کی سیاسی جماعت کو کوئی فائدہ ہوا ہے تو محض اس لئے کہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے درمیان انتشار رہا ہے۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ اگر بہار کی طرح قومی سطح پر بھی تمام غیر بھاجپا سیاسی جماعت متحدہو جائیں تو کہیں بھی بھاجپا کے لئے جگہ ملنی مشکل ہو جائے گی۔مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ کیا قومی سطح پر اس طرح کا اتحاد ممکن ہے۔ کیوں کہ حال ہی میں اتر پردیش میں مایا وتی اور ملائم سنگھ یادو کو قریب کرنے کی کوشش شروع ہوئی تھی لیکن بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایا وتی نے سرے سے ہی اس اتحاد کی بات کو خارج کردیا ۔ ظاہر ہے کہ اتر پردیش میں بھی ایک پارلیامانی سیٹ اور گیارہ اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہونا ہے اگر اتر پردیش میں بہار کی طرح غیر بھاجپائی سیاسی جماعتوں کا اتحاد عمل میں نہیں آتا ہے توجس طرح پارلیامانی انتخاب میں ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے بھاجپا کو فائدہ ملا تھا اسی طرح اس ضمنی انتخاب میں بھی مل سکتا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر اتر پردیش کے غیر بھاجپا سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر وہاں بھاجپا کا حوصلہ پست نہیں ہوگا تو آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخاب میں بھی سیکولر جماعتوں کے لئے منفی نتیجہ آسکتا ہے۔ ؎

    قصہ کوتاہ! اس وقت بہار میں جو اتحاد ہوا ہے وہ مثالی ثابت ہوا ہے لیکن بہار کے ضمنی انتخاب میں ایک چونکانے والی یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اب سیاست میں مسلم سیاست دانوں کی راہیں دنوں دن دشوار تر ہوتی جا رہی ہیں کیوں کہ حالیہ ضمنی انتخاب میں جنتا دل متحدہ ،راجد اور کانگریس اتحاد نے دس سیٹوں میں دو سیٹوں پر مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے ان میں نرکٹیا گنج اسمبلی حلقہ سے کانگریس کے مسلم امیدوار فخر الدین خان تھے جب کہ بانکا اسمبلی حلقہ سے راجد نے اقبال حسن انصاری کو ٹکٹ دیا تھا ۔ واضح ہو کہ بھاجپا نے کہیں سے بھی مسلم امیدوار نہیں اتارا تھا۔ سب سے دلچسپ بات تویہ ہے کہ بانکا اسمبلی حلقہ مسلم اکثریت والا حلقہ ہے اور وہاں پہلے بھی راجد کے ہی امیدوار کامیاب ہوئے تھے لیکن حالیہ ضمنی انتخاب میں اقبال حسن انصاری محض 711ووٹوں سے انتخاب ہار گئے ہیں اور وہاں سے بھاجپا کے رام لال منڈل کو کامیابی مل گئی۔بقول امیدوار اقبال حسن انصاری کہ ان کی شکست میں بانکا کے سابق ممبر اسمبلی اور بہار حکومت کے موجودہ وزیر جاوید اقبال انصاری کا ہاتھ ہے۔ اگر اقبال حسن انصاری کا الزام سچ ثابت ہوتا ہے تو یہ ایک افسوسناک بات ہوگی کہ آپسی رسہ کشی کی وجہ سے ایک سیٹ معمولی ووٹوں سے بھاجپا کی جھولی میں چلی گئی ۔ اسی طرح نرکٹیا گنج کی سیٹ بھی فخرالدین خاں کونہیں مل سکی جب کہ وہ سیٹ بھی آسانی سے سیکولر اتحاد کو حاصل ہو سکتی تھی۔ اس ضمنی انتخاب میں دونوں سیٹوں سے مسلم امیدوار کی ناکامی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لوگ ہوں مسلم امیدواروں کے تئیں ذہنی تعصب وتحفظ کے شکار ہیں اور جس کی وجہ سے دنوں دن پارلیامنٹ ہو کہ اسمبلی میں مسلم نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔اس مسئلے پر نہ صرف مسلمانوں کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے بلکہ ان سیاسی جماعتوں کو بھی غوروفکر کرنے کی ضرور ت ہے جو مسلم ووٹوں کی بدولت پارلیامنٹ یا اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتی رہی ہیں۔

**************

Comments


Login

You are Visitor Number : 679