donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Assembly Intekhab Me Firqa Warana Safbandi Ki Koshish


بہار اسمبلی انتخاب میں فرقہ وارانہ صف بندی کی کوشش؟


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج ، دربھنگہ

موبائل9431414586-

ای میلrm.meezan@gmail.com-


    بہار اسمبلی انتخاب کی مہم اپنے شباب پر ہے کہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ 12اکتوبر کو ہوگی۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں نے ان حلقوں میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے جہاں پہلے مرحلے میں پولنگ ہونی ہے۔ ایک طرف عظیم اتحاد یعنی نتیش کمار کی قیادت میں جنتا دل متحدہ، لالو پرساد یادو کی قیادت میں راشٹریہ جنتادل اور اشوک چودھری کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم چل رہی ہے۔ دوسری طرف این ڈی اے میں بھاجپا نے کسی بھی ریاستی لیڈر کو کمان نہیں سونپی ہے بلکہ مودی کابینہ کے ایک درجن وزراء بہار اسمبلی انتخاب کے معرکہ کو سر کرنے کے لئے ہر ممکن حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ بھاجپا کے قومی صدر امیت شاہ ،بھاجپا لیڈروں کے علاوہ اپنے اتحادی لوک جنشکتی پارٹی کے سپریمو رام ولاس پاسوان اور لونتانترک سمتا پارٹی کے لیڈر اوپند کشواہا کے ساتھ مل کر انتخابی بساط بچھا رہے ہیں۔ مودی کابینہ کے وزراء میں دھرمیندر پردھان، جئے پرکاش نڈا، کلراج مشرا، سنتوش گنگوار، سادھوی نرنجن جیوتی، روی شنکر پرساد، گری راج سنگھ وغیرہ شامل ہیں۔ بھاجپا اتحاد اور عظیم اتحاد دونوں کے لئے باغیوں کی بغاوت درد سر بن گئی ہے۔ چونکہ یہ انتخاب دونون اتحاد کے لئے جینے مرنے کا سوال ہے۔ اس لئے ہر وہ نسخہ اپنایا جارہا ہے جس کی بدولت سیٹیں جیتی جاسکیں۔ ایک طرف لالو یادو پھر نوے کی دہائی کے فورم میں ہیں اور ان دنوں روزانہ چار سے پانچ انتخابی میٹنگ کر رہے ہیں۔ لالو پرساد یادو اپنی ہر میٹنگ میں پسماندہ طبقے کو متحد کر نے کی کوشش کر رہے ہیں اور بھاجپا کے ساتھ آر ایس ایس و سنگھ پریوار پر زبردست حملہ بول رہے ہیں۔ بالخصوص حال ہی میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے ریزرویش کے تعلق سے جو بیان دیا ہے اس کو لالو پرساد یادو چیلنج کر رہے ہیں اور ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں کوئی مائی کا لال ریزرویشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ گذشتہ کل جب پٹنہ میں امیت شاہ اپنے حامیوں کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے ٹھیک اسی وقت لالو پرساد یادو راگھوپور اسمبلی حلقہ کے ترسیا گائوں میں انتخابی جلسہ میں یادو برادری کو خبردار کر رہے تھے کہ یہ جنگ فارورڈ اور بیک وارڈ کی ہے۔ اگرچہ انتخابی کمیشن نے ان کے اس بیان پر نوٹس لیا ہے کہ یہ انتخابی ضابطہء اخلاق کے خلاف ہے اس لئے ان پر مقدمہ بھی دائر ہوا ہے۔ دریں اثناء بھاجپا کے لیڈر سوشیل مودی پر بھی ضابطہء اخلاق کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج ہوا ہے کہ وہ بھبھوا اسمبلی حلقہ میں انتخابی جلسہ کے دوران یہ اعلان کیا کہ ان کی حکومت بنی تو مہادلتوں کی بستی میں کلر ٹی وی اور پچاس ہزار روپے کا لیپ ٹاپ دیں گے۔ ظاہر ہے کہ خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو وہ یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ انتخابی موسم میں کچھ بھی اعلان کیا جاسکتا ہے کیونکہ انتخاب کے نتائج کے بعد اس کی کبھی پرسش نہیں ہوتی ورنہ آزادی کے بعد ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور پر ایک فیصد بھی عمل کیا ہوتا تو آج ملک کی 70فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے کی زندگی نہیں گذار رہی ہوتی۔ گذشتہ سال پارلیامانی انتخاب کے وقت نریندر مودی نے جتنے اعلانات کئے تھے وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کے ڈیڑھ سال بعد بھی ایک بھی اعلان عملی صورت اختیار نہیں کر سکا، بلکہ امیت شاہ نے تو ان تمام اعلانوں کو انتخابی جملہ کہہ کر سرے سے ہی خارج کر دیا۔بہر حال، بہار اسمبلی انتخاب میں بھی طرح طرح کے لبھانے والے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برسوں سے ٹھگے جارہے عوام کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ بہار کی کل آبادی 11کروڑ 41لاکھ ہے اور کل ووٹروں کی تعداد 6کروڑ 68لاکھ ہے جن میں مرد ووٹر 3 کروڑ 56لاکھ اور خواتین ووٹرس 3کروڑ 11لاکھ ہیں۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس اسمبلی انتخاب میں پہلی بار ووٹنگ کرنے والے نوجوان ووٹرس کی تعداد  1کروڑ 17لاکھ ہے۔ اس لئے انتخاب کے نتائج کو پہلی دفعہ ووٹ دینے والے یہ ووٹرس قدرے زیادہ اثرانداز کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اندر ایک نیا جوش و ولولہ ہے۔ اس لئے ان کا ووٹ فیصد بھی زیادہ ہوگا۔ چونکہ بہار میں 38فیصد ووٹر ناخواندہ ہیں اور مزدور طبقہ کے ہیں۔ جبکہ خواندہ ووٹرس 62فیصد ہیں۔ ایسی صورت میں ووٹنگ فیصد 60اور 70 کے درمیان رہنے کا امکان ہے اور چونکہ مقابلہ سخت ہے، اسی لئے کسی بھی سیٹ کو یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ نتیش کمار اپنی صاف ستھری شبیہہ کی بدولت عوام کے درمیان اپنے کاموں کا بدل اور انصاف مانگ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مرکز کے ذریعہ ریاست کو خصوصی ریاست کا درجہ نہ دئے جانے کے لئے مودی حکومت کو کٹگھرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ حال میں وزیر اعظم کے ذریعہ جو مبینہ خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا تھا، نتیش کمار نے تمام تر دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ اس خصوصی پیکج کو ایک دھوکا قرار دیا ہے۔ ان کی باتوں میں دم نظر آرہا ہے اور اس لئے ان کے انتخابی جلسوں میں نہ صرف جم غفیر نظر آرہا ہے بلکہ ان کے حامی جوش و خروش سے لبریز بھی نظر آرہے ہیں۔ ادھر لالو پرساد یادو حسب روایت پسماندہ اور غریب طبقے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ رہے ہیں اور مرکزی حکومت کے ذریعہ پٹرول سستے اور دال مہنگے ہونے کو انتخابی موضوع بنارہے ہیں۔ وہ ہر جلسہ میں عوام الناس سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ پٹرول تو اعلیٰ طبقے کی لوگ استعمال کرتے ہیں اور اسے سستا کیا جارہا ہے، جبکہ غریبوں کی تھالی سے دال دور ہوتی جارہی ہے۔ لالو پرساد اپنے ہر انتخابی جلسے میں لوگوں کو یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ فرقہ پرست طاقت ریاست میں فرقہ وارانہ فساد برپا کر سکتی ہے۔ ان کی باتوں میںسچائی بھی نظر آرہی ہے کہ پڑوسی ریاست جھارکھنڈ کے رانچی میں گذشتہ چار دنوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول ہے، تو بہار کے بھاگلپور جیسے حساس شہر میں ایک مسجد کی چھت پر خنزیر پھینک کر ماحول کو کشیدہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ضلع انظامیہ اور وہاں کے دانشوروں کی پہل سے حالات ابھی قابو میں ہیں لیکن بھاگلپور جہاں 1989میں فرقہ وارانہ فساد ہواتھا اور ہزاروں مسلمان فرقہ پرستوں کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے تھے، اس شہر میں اس طرح کی حرکت کا مقصد ظاہر ہے کہ فرقہ پرست اس اسمبلی انتخاب میں فساد کی زمین زرخیز کرکے فصل کاٹنا چاہتے ہیں۔ اس لئے دونوں فرقے کے سیکولر لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سازشوں کو ناکام کرنے کی جدجہد کریں کہ اگر فساد ہوتا ہے تو نہ صرف جمہوریت داغ دار ہوگی بلکہ انسانیت تباہ ہوگی۔چونکہ اسمبلی انتخاب کے تہواروں کے موسم میں ہورہا ہے ۔ ہندوئوں کے درگا پوجا اور مسلمانوں کا محرم بھی اسی مدت کار میںہے۔بہار میں درگا پوجا اور محرم دونوں تہواروں میں کئی جگہوں پر حساسیت بڑھ جاتی ہے ۔ ماضی میں بھی انتظامیہ کے لئے یہ دونوں تہوار امتحان کا ہوتارہا ہے۔ اس بار تو انتخاب کی وجہ سے اور بھی حساسیت بڑھ گئی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس انتخابی مہم میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی طاقت جھونک دی ہے، بالخصوص بھاجپا نے اس ریاستی انتخاب کو قومی وقار کا سوال بنا لیا۔ اس لئے 2اکتوبر سے وزیر اعظم نریندر مودی بانکا کے عوام جلسے سے خطاب کریں گے اور اعلانیہ کے مطابق بہار میں ایک درجن سے زیادہ ان کے جلسے ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ راج ناتھ سنگھ، سشما سوراج اور ارون جیٹلی جیسے مودی کابینہ کے بااثر لیڈر بھی بہار کے تقریبا ہر ضلع میں انتخابی جلسہ کریں گے۔کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہل گاندھی کا بھی عوام جلسہ اسی ہفتے شروع ہورہا ہے۔ عظیم اتحاد کی جانب سے بھی انتخابی جلسوں کا خاکہ تیار کر لیا گیا ہے۔ تیسرے مورچے میں شامل سماجوادی پارٹی اور این سی پی بھی جگہ بہ جگہ انتخابی جلسہ کر رہے ہیں۔ بایاں محاذ بھی پورے دم خم سے انتخابی میدان میں اترا ہوا ہے۔ اس لئے 12اکتوبر کو جب پہلے مرحلے کی پولنگ ہوگی اس سے ہی اسمبلی انتخاب کے رجحان کا پتہ چل جائے گا۔ ویسے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ہر ایک دو دن وقفے پر انتخابی سروے پیش کیا جارہا ہے، مگر بیشتر سروے یا تو گمراہ کن ہیں یا یک طرفہ نظر آرہا ہے۔ بہار کی زمینی حقیقتوں سے ان سروے کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ بہار اسمبلی انتخاب کے مرحلہ وار پولنگ کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو عوامی اجلاس سے خطاب کرنے کا قسطوں میں موقع مل گیاہے۔ اس لئے اس بار ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ انتخابی اجلاس کرنا چاہتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جب آٹھ نومبر کو اسمبلی انتخاب کا نتیجہ آئے گا تو بہار کی سیاست کا اونٹ کون سا کروٹ لیتا ہے کہ اس نتیجے سے نہ صرف بہار کی تقدیر بدلے گی بلکہ قومی سیاست کی تصویر بھی بدلنے والی ہے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 406