donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar : Hukmaran Ittehad Me Inteshar Ki Afwahe.n


بہار:حکمراں اتحاد میں انتشار کی افواہیں


ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل :9431414586


بہار میں موجودہ حکمراں اتحاد یعنی جنتادل متحدہ، راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کے درمیان بظاہر کسی طرح کی رسہ کشی تو نظر نہیں آرہی ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اتحاد کی تینوں جماعتیں اپنی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے الگ الگ جد وجہد کررہی ہیں۔ اس لئے حزب اختلاف کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی افواہوں کو ہوا دے رہے ہیںکہ ریاست میں وسط مدتی اسمبلی انتخاب بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ سیاسی بصیرت رکھنے والوں کے گلے سے یہ بات کسی طور اتر نہیں رہی ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر منگل پانڈے ان دنوں اپنی ہر ایک عوامی میٹنگ میں اس بات کو دہرا رہے ہیں۔ اسی طرح حزب اختلاف کے لیڈر پریم کمار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ لیڈر سشیل کمار مودی بھی عوامی جلسوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حالیہ دنوں میں حکمراں اتحاد خود کو انفرادی طور پر فعال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف کانگریس نے مسلم دلت اتحاد کے لئے ریاستی سطح پر تحریک شروع کی ہے تو دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو کی ہدایت پر ان کے بیٹے نائب وزیر اعلیٰ تجسوی یادو نے ریاستی دورہ شروع کردیا ہے۔ اب تک وہ ایک درجن سے زیادہ اضلاع کا دورہ کرچکے ہیں اور تمام جلسوں میں سرکاری اسکیموں کے تعلق سے اپنی بات کہنے کے ساتھ ساتھ راشٹریہ جنتا دل کے تنظیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کا لائحہ عمل تیار کررہے ہیں، بالخصوص وہ پارٹی کے یوتھ ونگ کو زیادہ متحرک بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ چونکہ اس وقت راشٹریہ جنتادل کے یوتھ ونگ کے ریاستی صدر قاری محمد صہیب ہیں اس لئے تجسوی یادو کی میٹنگ کو کامیاب بنانے میں مسلم نوجوانوں کی حصہ داری زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ لالو پرساد یادو کی پہلے بھی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مسلم ووٹروں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھیں۔ حالیہ اسمبلی انتخاب میں لالو پرساد کی پارٹی راشٹریہ جنتادل کے استحکام میں مسلم ووٹروں کا کلیدی کردار رہا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ موجودہ حکمراں اتحاد کو کامیاب بنانے میں مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ہے، خواہ کانگریس کے گراف میں اضافہ ہو کہ جنتادل متحدہ کے امیدواروں کی کامیابی، ورنہ جس طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار اسمبلی انتخاب کو اپنی انا کا سوال بنا رکھا تھا اس سے تو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ بہار میں بھاجپا کی حکومت ہوجائے گی لیکن نتیجہ بے حد چونکانے والا رہا اور بھاجپا حاثیہ پر چلی گئی۔ قومی سطح پربھی یہ بات تسلیم کی گئی کہ بہا ر کے مسلم ووٹروں نے اپنی سیاسی بصیرت کا تاریخی مظاہرہ کیا ہے۔ 

بہرکیف، اب جبکہ حکمراں اتحاد راشٹریہ جنتادل، جنتادل متحدہ اور کانگریس وقتاً فوقتاً کچھ اس طرح کا سیاسی بیان دیتے رہتے ہیں جس سے عوام الناس میں بھی اس طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی رہتی ہیں کہ یہ اتحاد شاید اپنی پوری مدت کار تک ایک ساتھ نہیں چل سکے۔ حال ہی میں وزیر اعلی نتیش کمار نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ماہ سے پوری ریاست کا دورہ کریں گے اور عوام الناس سے روبرو ہوکر ریاست میں حکومت کی کارکردگی سے واقف ہوںگے۔ نتیش کمار پہلے بھی اس طرح کا دورہ کرتے رہے ہیں، کبھی کمشنری سطح کے خصوصی اجلاس میں لوگوں سے مخاطب ہوتے رہے ہیں تو کبھی کسی دور دراز کے گائوں میں شب گزاری کا پروگرام منعقد کرتے رہے ہیں۔ دراصل نتیش کمار ماضی میں بھی عوام کے رخ کو جاننے کے لئے اس طرح کے سیاسی پروگرام کرتے رہے ہیں۔ اس بار جب انہوںنے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ پوری ریاست کا دورہ کرکے لوگ باگ سے روبرو ہوںگے تو حزب اختلاف اس بات کو پھیلانے میں لگی ہے کہ نتیش کمار اب اتحاد سے الگ ہونے کا ذہن بنا رہے ہیں، بالخصوص بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈر سشیل کمار مودی اس بات کو کچھ زیادہ ہی طول دے رہے ہیں۔ دراصل جب نتیش کمار نے بھارتیہ جنتاپارٹی سے اپنا اتحاد ختم کیا تھا تو انہوںنے اسی طرح کے سیاسی دورے کا آغاز کیا تھا اور ریاست کے عوام کا رخ جاننے کے بعد بھاجپا کو اپنی حکومت سے الگ کردیا تھا۔ شاید اس لئے بھاجپا یہ سمجھ رہی ہے کہ اب حکمراں اتحاد میں انتشار ہونا طے ہے، اگرچہ اتحاد کے اندر اس طرح کی کوئی سگبگاہٹ نظر نہیں آرہی ہے ۔ البتہ جس طرح اچانک کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل فعال ہوئی ہے اور اس کے بعد وزیر اعلی نتیش کمار نے ریاستی سطح کے سیاسی دورے کا اعلان کیا ہے اس سے ایسا ضرور لگتا ہے کہ راکھ میں کہیں چھپی ہوئی چنگاری تو نہیں ہے جو ہوا کے انتظار میں ہے۔ 

بہار میں اس وقت جو سیاسی صورتحال ہے اس میں حکمراں جماعت کا منتشر ہونا سیکولر اتحاد کے لئے خصارے کا سوداہوسکتا ہے، کیوں کہ آج کی سیاسی فضا میں جس طرح فرقہ وارانہ زہر گھولا جارہا ہے، سماجی تانے بانے کے شیرازے کو بکھیرنے کی شازشیں چل رہی ہیں، ملک کی ایک بڑی آبادی اقلیتی طبقے کو عائیلی مسائل یعنی کامن سول کوڈ اور طلاق ثلاثہ کے مسائل میں الجھایا جارہا ہے، ایسے وقت میں اگر بہار کا موجودہ سیاسی اتحاد منتشر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ ممکن ہے کہ بھاجپا کو مل جائے اور شاید اس لئے بھاجپا اس بات سے نہ صرف خوش ہے بلکہ حکمراں اتحاد کے روزمرہ کے معمولی تو تو مے مے کو بھی قومی سطح پر پیش کررہی ہے۔ اب تو یہ افواہ بھی پھیلائی جارہی ہے جس میں قومی میڈیا کا بھی بڑا رول ہے کہ چونکہ حکومت میں لالو پرساد یادو کی پارٹی شامل ہے اس لئے ریاست میں نظم ونسق کے حالات میں بگاڑ پیدا ہوا ہے اور اس لئے نتیش کمار پھر بھاجپا کی طرف جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آج کی سیاست میں کب کون کس کے ساتھ رہتا ہے یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن نتیش کمار کا بھاجپا کے ساتھ پھر جانا بعید از قیاس معلوم پڑتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت نتیش کمار خود قومی سطح پر اپنی ایک سکولر شبیہ بنانے میں کوشاں ہیں اور اس کیلئے وہ مختلف ریاستوں میں اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی دکھا رہے ہیں۔وہ شراب بندی کے لئے مختلف جلسوں میں شرکت کررہے  ہیں۔،بلکہ جنتادل متحدہ کا ایک طبقہ تو انہیںوزیر اعظم کا امیدوار بھی قرار دے رہا ہے۔ اتنا تو سچ ہے کہ قومی سطح پر نتیش کمار کی شناخت ایک ایماندار سیاسی لیڈر کے طور پر تو ابھری ہے لیکن قومی سیاست کا رخ صرف بہار کی سیاست نہیں موڑ سکتی ، یہ بھی ایک اظہر من الشمش حقیقت ہے۔

الغرض، بہار میں ان دنوں حکومت کی کارکردگی سے کہیں زیادہ حکمراں اتحاد کے اندیشہ انتشار پر بحث ومباحثہ ہورہی ہے۔ بالخصوص حزب اختلاف جس کا کام حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے کا ہے اور مفاد عامہ کے مسائل کو اجاگر کرنے کا ہے، وہ بھی بس اتحاد کے مستقبل پر تبصرہ کرنے میں لگا ہے۔ سشیل کمار مودی جیسے بھاجپا کے سینئر لیڈر ان دنوں لالو پرساد کے بیٹے تجسوی یادو، نائب وزیر اعلی بہار کی شادی کے مسئلے کو سوشل میڈیا میں پیش کرنے میں لگے ہیںاور ان دونوں کے درمیان غیر اخلاقی حد تک بیان بازی ہورہی ہے۔ بلا شبہ نائب وزیر اعلی تجسوی یادو کی شادی کا مسئلہ ان کا ذاتی ہے یا پھر ان کے خاندان کا ہے لیکن اس مسئلے کو حزب اختلاف کے ذریعہ اچھالا جانا کسی طرح بھی جائز نہیں بلکہ عوام کو بنیادی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانے کا عمل ہے۔ آج سیاست میں جو اخلاقی گراوٹ آئی ہے یہ سب اسی کا مظاہرہ ہے اور اس کیلئے ہر ایک سیاسی جماعت کہیں نہ کہیں کٹہرے میں کھڑی ہے۔جمہوریت میں سیاسی جماعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے اور سیاسی جماعتوں کا فرض اولین یہ ہے کہ وہ ملک اور ریاست کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی سبیل نکالیں اور حکمراں جماعت مفاد عامہ کے کاموں کو عملی جامہ پہنائے۔ لیکن حالیہ سیاست نے جمہوریت کے اس تقاضے کو شاید فراموش کردیا ہے اس لئے سیاسی بیان بازی کا معیار دنوں دن پست ہوتا جارہا ہے، یہ ایک المیہ ہے۔ 

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 621