donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar - Baghi Har Aik Se Poochhte Hain Jayen Kidhar Ko Ham


بہار: باغی ہر ایک سے پوچھتے ہیں جائیں کدھر کو ہم؟


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج ، دربھنگہ

موبائل9431414586-

ای میلrm.meezan@gmail.com-


    اب بہار اسمبلی انتخاب کا سیاسی منظرنامہ صاف ہو چلا ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ اس انتخاب میں جنتا دل متحدہ اور قومی جمہوری اتحاد کے درمیان سیدھا مقابلہ نہ ہو کر کہیں سہ طرفہ تو کہیں چہار طرفہ مقابلہ بھی ممکن ہے کیونکہ ملائم سنگھ کی قیادت والی سماجوادی پارٹی نے ایک نیا مورچہ تشکیل دے دیا ہے جس میں این سی پی، جنادھیکار پارٹی اور سماج وادی سیکولر پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اس نئے اتحاد کا نام سماج وادی سیکولر رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاسی مورچہ کبھی عظیم اتحاد کی وکالت کر رہا تھا لیکن سیٹوں کی تقسیم میں نفع و نقصان کا معاملہ درپیش آنے کے بعد ان لوگوں نے عظیم اتحاد سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ طارق انور این سی پی کے لیڈر ہیں جبکہ جنادھیکار پارٹی کے روح رواں ممبر پارلیامنٹ راجیش رنجن عرف پپو یادو ہیں جبکہ کبھی راشٹریہ جنتا دل اور بالخصوص لالو یادو کے قریب رہنے والے دیویندر پرساد یادو اور ناگمنی بھی اسی اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں۔  اور یہ نیا اتحاد بہار کی تمام سیٹوں پر اپنا امیدوار دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں سیکولر اتحاد کے ووٹوں کا منتشر ہونا ،خواہ کم ہو یا زیادہ، طئے ہے۔ بایاں محاذ پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ 243سیٹوں والی اسمبلی میں   194سیٹوں پر انتخاب لڑے گی۔ ساتھ ہی ساتھ کئی علاقائی پارٹیاں بھی اپنے امیدوار کھڑا کریں گی۔سیمانچل میں پہلے سے ہی اسدالدین اویسی نے 25سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ فی الوقت تمام پارٹیوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کو لیکر افراتفری کا عالم ہے۔ ایک طرف حکمراں جماعت جنتادل متحدہ نے اپنے کئی موجودہ ممبر اسمبلی کا ٹکٹ کاٹ دیا ہے تو دوسری طرف بھاجپا میں بھی بغاوت کم نہیں ہے۔ لالو یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل میں بھی باغیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ رام ولاس کی پارٹی لوک جنشکتی پارٹی میں بھی بغاوت کی چنگاری سلگ رہی ہے تو لوک تانترک سمتا پارٹی یعنی اوپندر کشواہا کی پارٹی میں بھی زبردست رسہ کشی ہے۔ اس بار تمام سیاسی جماعتوں میں بزرگ لیڈروں کے ذریعہ اپنے وارثوں کو ٹکٹ دلانے کی ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ اس سے بھی سیاسی جماعتوں میں بغاوت کی چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کرتی جارہی ہے۔ مثلاً لالو پرساد یادو کے دونوں بیٹے تیجسوی یادو اور تیج پرتاپ یادو بالترتیب راگھو پور اور مہوا اسمبلی حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی پارٹی کارکن نے باغیانہ تیور اختیار کر لیا ہے۔ اسی طرح جیتن رام مانجھی نے اپنے بیٹے سنتوش کمار سومن کو کٹمبہ، شکنی چودھر ی کے بیٹے  راجیش کمار کو کھگڑیا حلقہ سے، لوک جن شکتی پارٹی کے ممبر پارلیامنٹ محبوب علی قیصر کے بیٹے صلاح الدین یوسف کو سمری بختیار پور حلقہ سے، رام چندر پاسوان کے بیٹے پرنس راج کلیان پور اسمبلی حلقہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔جبکہ بی جے پی کے ممبر پارلیانٹ سی پی ٹھاکر کے بیٹے وویک ٹھاکر برہم پور، اشونی چوبے کے بیٹے ارجیت شاشوت بھاگلپور اور گنگا پرساد کے بیٹے سنجیو چورسیا دیگھا سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ غرض کہ بہار میں کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں ہے جن کے بڑے لیڈروں کے بیٹے بھتیجے اور داماد کو ٹکٹ نہیں ملا ہو۔ اس معاملے میں جنتا دل متحدہ کے لیڈر وزیر اعلیٰ نتیش کمار واحد ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اپنے کسی بھی رشتہ دار کو پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ لیکن جس طرح پارٹی کے کئی موجودہ ممبران اسبلی کا ٹکٹ کاٹا گیا ہے اس سے علاقے میں بغاوت بڑھی ہے۔ مثلاًجنتا دل متحدہ کے ممبر اسمبلی دائود علی اور مدن سہنی کاٹکٹ کٹ گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر اظہار احمد کے متعلق بھی یہ خبر گرم ہے کہ ان کو جنتا دل متحدہ ٹکٹ نہیں دے رہی ہے۔ ان لیڈروں نے بھی باغیانہ تیور اپنا لیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے بھگوان کشواہا اور راگھویندر پرساد سنگھ کا بھی ٹکٹ کٹ گیا ہے۔ دریں اثنا مدھوبنی کے بزرگ لیڈر نیر اعظم کو بھی بے ٹکٹ کرنے کی خبر گرم ہے۔اگر ان لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا ہے تو اس کے بھی مضر اثرات ان کے علاقے میں متعلقہ پر پڑ سکتے ہیں۔ بھاجپا میں بھی بغاوت کی آگ کم نہیں ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر چندر موہن رائے نے باغیانہ تیور اپنا لیا ہے اور پارٹی سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ واضح ہو کہ چندر موہن رائے بھاجپا میں ایک خاص ذات بھومیہار طبقے میں اپنی مضبوط پکڑ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھاجپا کے سوشیل مودی پر یہ الزام لگایا ہے کہ پارٹی میں ٹکٹ کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ کچھ اس طرح کا الزام لوک جن شکتی پارٹی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی پر لگایا جارہا ہے۔کشواہا کی دہلی کی پریس کانفرنس میں جس طرح کا ہنگامہ ہوا وہ جگ ظاہر ہے۔ اب یہ تمام باغی لیڈران جائیں تو کدھر جائیں راستہ تلاش رہے ہیں۔اور ہر ایک پارٹی کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پانچوں مرحلوں کی ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد بہار اسمبلی انتخاب میں کس طرح کا منظر نامہ ابھرتا ہے۔ لیکن فی الوقت جس طرح کا تیور باغیوں نے اپنا لیا ہے ، اس سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ بہتیروں کا کھیل بگاڑ سکتے ہیں۔ کیوں کہ بہار اسمبلی انتخاب کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سو سے ہزار تک ووٹوں کے فاصلوں سے سینکڑوں سیٹوں کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں باغیوں کے ہاتھوںکب کس کا بیڑہ غرق ہو جائے یہ کہنا مشکل ہے۔

    جہاں تک حکمراں جماعت جنتا دل متحدہ اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتادل کا سوال ہے تو یہ دونوں پارٹیاں اس بار کسی طرح بھی اپنی جیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اور شاید اس لئے ایسے امیدواروں کی تلاش میں ہیں جو انہیں سیٹ دلا سکیں۔ کیونکہ عظیم اتحاد کی 41سیٹیں کانگریس کے حصے میں گئی ہیں اور کانگریس میں بھی جس طرح بغاوت ہے اس سے یہ اندیشہ ہے کہ 50فیصد سیٹ بھی وہ جیت نہیں پائے گی۔ ایسی صورت میں جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل پر انحصار ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیٹ جیت سکیں تاکہ بہار سے بھاجپا کا پائوں اکھڑ سکے۔ یہ حقیقت تو پوری دنیا جانتی ہے کہ بہار اسمبلی کا یہ انتخاب نہ صرف بہار کے لئے تاریخی ثابت ہوگا بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بالخصوص سنگھ پریوار کے لئے بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر بہار میں بھاجپا کو پائوں جمانے کا موقع نہیں ملا تو وہ اترپردیش اور مغربی بنگال میں بھی قدم نہیں جما پائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہار اسمبلی انتخاب کے تعلق سے قومی سطح پر گرما گرم بحث ہورہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دہلی اور دیگر جگہوں میں بیٹھے سیاسی مبصر جس طرح کا   لا یعنی تبصرہ کر رہے ہیں اس سے بہار کی سیاست کی زمینی حقیقت قدرے مختلف ہے۔ ذرائع ابلاغ میں جس طرح بہار کے تعلق سے بے سر پائوں کی باتیں کی جارہی ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری میڈیا کس طرح یک طرفہ رخ اختیار کرتی جارہی ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ بیشتر میڈیا زعفرانی رنگ میں رنگ چکی ہے۔ ویسے اس بار بہار کے ووٹر بھی قدرے بیدرا نظر آرہے ہیں اور وہ میڈیا کی افواہوں پر کان نہیں دے رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی علامت ہے اور بہار کے لئے صحت مند سیاسی فضا کے لئے  معاون ثابت ہوگی۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 478