مودی نے الیکشن کو تاریخی بنادیا
حفیظ نعمانی
ملک کے چند تاریخی انتخابات میں سے ایک انتخاب دہلی کا وہ بھی مکمل ہوگیا جو برسوں یاد رہے گا۔ ہر صوبہ کی طرح دہلی میں بھی ہر پانچ سال کے بعد الیکشن ہوتا آیا ہے جس میں زیادہ تر کانگریس کامیاب ہوئی ہے لیکن تین چار بار جن سنگھ بھی جیتی ہے۔ دہلی پوری ریاست نہیں ہے اس کی کئی چیزیں مرکز کے اختیار میں ہیں جنہیں لیفٹیننٹ گورنر مرکزی حکومت کی طرف سے کنٹرول کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے اور مرکز میں کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو پانچ سال تک نعرہ لگتا ہے کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے اور دونوں جگہ اگر ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو مطالبہ سرد خانے میںڈال دیا جاتا ہے۔
جو الیکشن آج پورا ہوا ہے اس میں عام آدمی پارٹی کا نعرہ تھا کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلایا جائے گا لیکن اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے تو آپ کیسے مطالبہ پورا کریں گے؟ مسٹر اروند کجریوال کو بھی معلوم ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوگا لیکن الیکشن کے لئے کچھ نعرے بھی ضروری ہوتے ہیں لہٰذا یہ نعرہ بھی ان میںسے ایک ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمت آدھی اور پانی مفت یا ہر جھگی کو پکا مکان اور ہر گھر میںفلیش کا وعدہ تو سب ہی کررہے ہیں لیکن جتنا کچھ این ڈی ٹی وی انڈیا کے رویش کمار نے دکھلا دیا اسے دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ کم از کم دس سال تو صرف اس میںخرچ ہوجائیں گے کہ اس کا منصوبہ بنایا جائے کہ کیا کرنا ہے؟ اور اس کے لئے ہزاروں کروڑ کہاں سے آئیں گے؟ اور اگر دہلی کا بجٹ چالیس ہزار کروڑ اسی میںخرچ کردیا تو باقی دہلی بھی ایسی ہی ہوجائے گی۔
شاید دہلی کا یہ پہلا الیکشن ہے جس میں کسی امیدوار کے گودام سے پانچ ہزار شراب کی بوتلیں برآمد ہوئی ہوں گی۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ ہم نے بہت الیکشن لڑائے ہیں اور معاف کرنے والا معاف کردے کہ روپئے دے کر بھی ووٹ خریدے ہیں اور دو ہزار ووٹوں کے لئے وہ بھی بھجوائی ہے جو پانچ ہزار پکڑی گئی ہے لیکن اپنی پوری عمر کے تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ پانچ ہزار بوتلیں امیدوار کی نہیں ہوسکتیں یہ ہریانہ حکومت کی سازش ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کوئی امیدوار خرید نہیں سکتا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پانچ ہزار بوتلیں تقسیم نہیں کراسکتا اس کا ثبوت دینے کے لئے ہمیں بہت پردے اُٹھانے پڑیں گے جن کے اُٹھانے کا اب بوڑھے ہاتھوں میں دم نہیں ہے۔ بس اسے مان لیجئے کہ یہ ناممکن ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پولیس کمشنر نے وزیر اعظم کی پارٹی کے مخالف امیدوار کا معاملہ ہوتے ہوئے بھی ملزم کو 9 تاریخ تک مہلت دے دی کہ وہ اطمینان سے الیکشن لڑا لیں پھر 9 تاریخ کو سوال جواب ہوجائیں گے۔
وہ جس کی بنیاد پر ہم نے اسے تاریخی الیکشن قرار دیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دہلی کا الیکشن ہورہا ہے کانگریس بھی لڑرہی ہے جس کو ووٹ دینے کے لئے مسز سونیا گاندھی نے دوبار جامع مسجد کے امام کو بھی خریدا تھا۔ اور 2012 ء میں شری ملائم سنگھ نے بھی انہیں خریدا تھا جس کے بدلے میں انہوں نے اپنے داماد کو کونسل کا ممبر بنوالیا اور پھر گلے میں ’’بکائو ہے‘‘ کا بورڈ لٹکالیا تھا لیکن اس بار نہ کانگریس نے بولی لگائی اور نہ کجریوال نے پوچھا کہ کیا بکائو ہے؟ اور جب دیکھا کہ ووٹ ڈالنے میں صرف کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں تو عام آدمی پارٹی کو حمایت دینے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے چتکبری داڑھی میں کنگھا کرکے ایک لکھا ہوا پرچہ سنا دیا کہ میں عوام خاص طور پر مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر ان کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔ امام جی کو یقین تھا کہ کجریوال شکریہ ادا کرنے آئیں گے اور شہرت کی حد تک وہ جیت بھی رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو حکومت بننے کے چند روز کے بعد سر پر سوار ہوجائیں گے کہ میرے دوسرے داماد یا بیٹے کو کچھ دو۔ ورنہ میں وہ ہوں جسے تاج پہنانا بھی آتا ہے اور تاج اتارنا بھی۔ کجریوال کے بارے میں ہماری رائے بہت اچھی ہے ان میں بس ایک کمی ہے کہ وہ سیاست کے پرانے کھلاڑی نہیں ہیں لیکن دو سال میں انہوں نے اتنا سیکھ لیا جتنا لوگ بیس برس میں سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے جامع مسجد کے امام کو ان کی اوقات بتادی اور ان کے جواب کا ہی نتیجہ یہ ہوا کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ امام نے 2004 ء میںاٹل جی سے پیسے لے کر اسمرتی ایرانی کا الیکشن لڑایا وہ ہاریں مسز سونیا ہاریں انہوں نے اپنے داماد کو سہارن پور سے لڑایا وہ ہارے۔ اسی لئے کجریوال نے ان کی پیشکش کو شکریہ کے ساتھ واپس نہیں کیا بلکہ ٹھکرا دیا۔ اس پیشکش سے انہوں نے اپنا ہی نہیں اپنے بیٹے کا بھی نقصان کیا جسے اب کسی بھائو کوئی نہیں خریدے گا۔
(یو این این)
***********************
|