donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Azim Rahi
Title :
   Mere Afsanche


 میرے افسانچے


 عظیم راہی

اورنگ آباد

 

میں نے ۱۹۷۵ء میں افسانچہ لکھنا شروع کیا۔ اس وقت میرے افسانچے مقامی اخبارات کے ادبی صفحات کے علاوہ رسائل میں بھی چھپنے لگے تھے۔ ۱۹۸۰ء کے آس پاس افسانچہ / منی افسانہ بڑی تعداد میں لکھا جانے لگا۔ خاص طور پر اس نئی صنف میں نئی نسل کے لکھنے والوں نے خوب طبع آزمائی کی اور حسب استعداد مقبولیت بھی ان کے ہاتھ آئی۔ افسانچہ کی اشاعت کے رجحان کو اس قدر بڑھاوا ملا کہ ’’روبی‘‘ جیسے نیم ادبی رسالہ نے ۱۹۷۹ء میں ’’منی کہانی نمبر‘‘ انعامی مقابلہ کے ساتھ بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ اخبارات کے ساتھ رسائل وجرائد بھی اسے خوب چھاپنے لگے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ تیار ہوگئی اور انھیں شاعری کی داد کی طرح مقبولیت ملتی رہی۔ لیکن ہر معاملے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ افسانچہ کی بے تحاشہ اشاعتوں نے افراط وتفریط کی فضا پیدا کردی۔ ہر کوئی افسانچہ لکھنے لگا اور نتیجہ یہ ہوا کہ افسانچہ کے نام پر لطیفہ گوئی شروع ہوگئی تو چند نے اقوال زرین اور حکایتوں کے ٹکڑوں کو افسانچہ سمجھ لیا۔ نئی نسل کی تن آسانی ، سہل پسندی اور ساتھ ہی اخبارات نے اپنی سہولت کے پیش نظر اسے مسلسل چھاپ کر ایک ایسی فضا قائم کردی۔ جس کے سبب افسانچہ مقبول ہونے کے ساتھ معتوب بھی ہونے لگااور پھر اس کی مخالفت میں کچھ لکھنے والوں نے اس قسم کی بے معنی بحث چھیڑدی کہ افسانچہ / منی افسانہ بھی کوئی صنف ادب ہے۔ یا نئی نسل کا محض وقت گزاری اور سستی شہرت کا ایک ذریعہ۔ اس لا یعنی بحث نے اتنا طول پکڑا کہ تقریباً چھ ماہ تک روزنامہ ’’اردو ٹائمز‘‘ (ممبئی) میں یہ سلسلہ (ستمبر ۱۹۸۴ء تا جنوری ۱۹۸۵ء) جاری رہا۔ اس بحث میں افسانچہ نگاروں نے تو حصہ لیا ہی ان لوگوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو اس فن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ جو محض اس کے لکھنے والوں کی مخالفت میں انگلی کٹاکر شہیدوں میں شامل ہوگئے تھے۔ اس پر طرّہ یہ کہ جس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا‘ جو سمجھ میں آیا لکھ دیا۔ کچھ لوگوں نے ادبی زُعم میں اسے فیشن کے منی اسکرٹ سے تعبیر کیا تو کسی نے یہ لکھنے سے بھی گریز نہیں کیا افسانچہ کا چلن عام ہوا تو ادب ہی مرجائے گا۔ بہر کیف‘ جتنے منہ اتنی باتیں لیکن بحث بے سود اور نتیجہ صفررہا۔

جب میں نے افسانچہ کا یہ حال دیکھا تو اس نئی تخلیقی صنف کا یہ حشر مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے افسانچہ کی ابتداء وارتقاء اور اس کے فن کا جائزہ لینا شروع کردیا ۔ اس طرح اس موضوع پر لکھنے کی شروعات ہوئی اور بہت جلد ایک تفصیلی مضمون ترتیب پاگیا جو تقریباً ۲۰!صفحات پر مشتمل تھا۔ جس میں ۴۸ حواشی شامل تھے۔ مرحوم قمر اقبال نے اس قدر ادبی حوالوں سے مزین مضمون کو بہترین قرار دے کر بڑی حوصلہ افزائی کی تھی۔ چونکہ مضمون کافی طویل تھا۔ اس لیے کسی اخبار میں اس کا چھپنا محال تھا۔ فوری طورپر کسی رسالے کو بھجوانے کا خیال بھی اس وقت میرے ذہن میں نہیں آیا اور پھر بات آئی گئی ہوگئی۔ حالانکہ وہ بے معنی بحث افسانچہ کی صورتحال اور فن کی ضروریات پر ایک طویل مضمون کے محرک بن کر مجھے مسلسل ترغیب دلاتی رہتی کہ اس مضمون کے سلسلے کو اور آگے بڑھاؤں۔ لیکن کچھ ذمہ داریاں ایسی آن پڑیں کہ وقتی طورپر یہ کام التواء میں پڑگیا۔ البتہ میری تخلیقی سرگرمیاں جاری رہیں۔ جس کے نتیجے میں ۱۹۸۷ء میں میرے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’’پھول کے آنسو‘‘ منظر عام پر آیا۔ جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی اور اس نئی صنف پر مبنی کتاب کی مقبولیت دیکھ کر میں ایک بار پھر اس صنف پر تحقیقی وتنقیدی کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔ افسانچہ پر کسی مضمون یا کوئی مجموعہ شائع ہونے کی خبر ملتے ہی میں انھیں حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتا۔ ۔ ۔ اس کوشش میں میرے پاس افسانچوں کے کئی مجموعے جمع ہوگئے(جن کی تعداد آج ۴۰ ہے) بعد میں برادرم عارف خورشید کے ساتھ روز نامہ ’’مفسر‘‘ کے ادبی صفحہ ’’فن وفنکار‘‘ میں ’افسانچہ نمبر‘ کی اشاعت میں ان کی معاونت کی۔ دس قسطیں اس نمبر کی مسلسل شائع ہوتی رہیں اور مقبول بھی ہوئیں۔ اس ’’خاص نمبر‘‘ کے لیے ملک بھر کے لکھنے والوں کی تخلیقات موصول ہوئیں اور مختلف ممتاز اہل قلم سے اس موضوع پر مضامین بھی لکھوائے گئے۔ ساتھ ہی اپنے کئی ہم عصر لکھنے والوں کو افسانچے کے مجموعوں کی اشاعت کی تحریک دلائی جنھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے تھے۔ جس کے مثبت نتیجے سامنے آئے۔ کئی مجموعے جلد ہی چھپ کر منظر عام پر آنے لگے۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں مرحوم اقبال بلگرامی کا مجموعہ ’’آب جو‘‘ خود دوبارہ ترتیب دے کر اس کی تدوین کی اور اسے عارف خورشید کے مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ میں شامل کروایا۔ اسی مجموعہ میں عارف خورشید کے افسانچوں پر ’سفر ہے شرط۔ ۔ ۔ ‘ کے عنوان سے پیش لفظ لکھا۔ بعد میں متین قادری کے افسانوی مجموعہ ’’فاصلوں کا ہمنشیں‘‘ ترتیب دے کر افسانوں کے ساتھ ان کے چند افسانچے بھی شامل کیے اور افسانہ نگار کا تعارف بھی تحریر کیا۔ اس طرح میرے متحرک ذہن میں اس موضوع پر ایک کتاب ترتیب دینے کا خیال دن بدن شدّت اختیار کرتا گیا۔ میں پوری سنجیدگی سے اس کام میں جٹ گیا۔ اسی دوران راز کرہلوی نے اپنے ماہنامہ ’’سلگتی لکیریں‘‘ (لکھنؤ) کا ’افسانچہ نمبر‘ شائع کیا۔ ہفت روزہ’’تاریخ‘‘ (ناندیڑ) نے بھی ’منی کہانی نمبر‘ بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ مناظر عاشق ہرگانوی نے افسانچوں کا (۴ زبانوں میں ترجمے کے ساتھ ) انتخاب ’قوس قزح‘ کے نام سے چھاپ کر متوجہ کیا۔ اسی طرح ’’اردو ٹائمز‘‘ (ممبئی) کا ’منی کہانی ضمیمہ (مئی ۲۰۰۰ء) منظر عام پر آیا۔ یہ سب ’نمبر‘ میرے اس کام کے لیے مزید تقویت کا باعث بنتے گئے۔ اس طرح تقریباً دس برس سے جاری اس کام کو میں نے اپنے طورپر پوری طرح انجام دینے میں مزید دس سال لگا دیے اور آخر ۲۰۰۶ء میں میری یہ کتاب تیار ہوگئی۔

چونکہ یہ کام بہت پھیلا ہوا تھا اور مقالہ بھی کافی طویل ہوچکا تھا۔ لہذا اسے کتابی شکل دینے کے لیے ترتیب وتزئین اور تدوین کی ضرورت تھی۔ اس میں بھی اچھا خاصہ وقت لگ گیا۔ اس اہم کاز میں میرے ہم عصر ممتاز ومعروف افسانہ نگار اور اچھے دوست نورالحسنین‘ عارف خورشید اور میرے کرم فرما مقبول ومعروف شاعر وادیب ڈاکٹر محبوب راہیؔ کی معاونتیں بھی شامل حال رہیں۔ ان کے ساتھ ہی فکشن کی ایک بڑی اہم سینئر اور معتبر شخصیت محترم جوگندر پال نے میری ہر وقت ‘ ہر طرح سے مدد فرمائی۔ جب کبھی وہ یہاں تشریف لاتے میں ان سے ضرور شرف نیاز حاصل کرتا اور ان سے ہر ملاقات میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ وہ اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے اور میری حوصلہ افزائی کرتے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ایک طرح سے اس کام کو میں ان کی رہنمائی میں انجام دے پایا ہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ میری خواہش پر انھوں نے کتاب کا مسودہ بڑے انہماک ودلچسپی سے پڑھ کر اپنے گرانقدر پیش لفظ سے نوازا اور میرے کام کی پذیرائی کی۔ جس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا ممنون ومشکور ہوں۔ میرے چند ہم عصر افسانہ نگار احباب محمد طارق (کھولا پوری)‘ ایم مبین‘ مظہر سلیم اور معین الدین عثمانی بھی اکثر وبیشتر اپنے زرین مشوروں سے مجھے نوازتے رہے اور اس کام کو پورا کرنے میں ہمیشہ حوصلہ بڑھایا۔ یہ سب میرے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اسی طرح عبدالرحیم نشتر کی کتاب ’’نور نثراد‘ ودربھ میں اردو افسانہ‘‘ اور ’’شاہین‘‘ (جلگاؤں) کا شمارہ نمبر۶ جو زیادہ تر خاندیش کے منی افسانہ نگاروں پر مشتمل تھا‘ میرے بہت کام آئے۔ان دونوں حضرات کا شکریہ ادا نہ کرنابڑی ناسپاسی ہوگی کہ ان دونوں کتابوں سے مجھے بڑا فیض پہنچا۔ ان دونوں علاقوں میں افسانچے بہت زیادہ لکھے گئے کہ یہاں کے سینئر لکھنے والوں میں اردو افسانہ کا کوئی بڑا اور معتبر (سوائے قاضی مشتاق احمد اور بانو سرتاج کے) نام نہیں ملتاہے اور ۱۹۷۰ء کے بعد جو لکھنے والے ابھرے وہ سب کے سب افسانچہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے کہ جدید اردو افسانہ کی گنجلک‘ ابہام بھری فضا سے ہٹ کر قاری کو قریب کرنے کی جو کوششیں ہوئیں ان میں افسانچہ پیش پیش تھا اور اسے پیش کرنے میں نئی نسل پوری طرح مستعد اور سرگرم تھیں۔ البتہ مرہٹواڑہ میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔ یہاں افسانے کے بڑے نام جیسے رفعت نواز‘ الیاس فرحت‘ محمود شکیل‘ اثر فاروقی اور رشید انور وغیرہ نے افسانچے نہیں لکھے۔ یہ لوگ اگرچہ افسانچہ کے راست خلاف نہیں تھے تو اس کے حق میں بھی نہیں تھے۔ ان سینئر اور ممتاز افسانہ نگاروں نے اس صنف کو قابلِ تخلیق سمجھا اور نہ ہی ادبی اعتبار سے قابل اعتنا جانا۔ جبکہ ۱۹۷۰ء کے بعد یہاں جو نسل ابھری انہوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بڑی تعداد میں لکھے۔ ان لکھنے والوں کو جوگندر پال جیسے سینئر ادیب کی رہنمائی حاصل تھی۔ ان دنوں جوگندر پال کا قیام اورنگ آباد میں تھا جو افسانچہ کی فضا کو نئی نسل میں مقبول عام بنانے میں خوب راس آیا۔ جس نے قاری کو قریب لاکر اس کی مقبولیت کے نئے راستے پیدا کیے اور یہ ثابت کردیا کہ قاری کی دلچسپی اور اس کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے جو ادب تخلیق کیا جائے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ یہ کارنامہ نئی نسل کے لکھنے والوں کے علاوہ قدرے سینئر افسانہ نگاروں نے بھی انجام دیا جنھوں نے ۱۹۷۰ء کے بعد جدید اردو افسانہ میں کہانی کی بازیافت کے عمل سے اردو افسانہ کو ایک نیا موڑدیاجہاں ایکبار پھر افسانہ کو قاری بھی ملے اور مقبولیت کی منزل بھی۔ ان افسانہ نگاروں کے اس قابل قدر کارنامہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جن میں سلام بن رزاق‘ انور خاں‘ انور قمر‘ عبدالصمد‘ شوکت حیات‘ حسین الحق وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ان لوگوں نے افسانچے تو نہیں لکھے لیکن اس نئی صنف میں نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ جس کے نتیجے میں یہ صنف پروان چڑھ کر پھلنے پھولنے لگی۔

جہاں تک میرے اس مقالے کا تعلق ہے میں نے باقاعدہ تحقیق کرکے اپنی بات کو مدلل انداز میں منوانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اپنے استدلال کو جہاں ضرورت محسوس ہوئی اسناد کے ساتھ پیش کیا اور اپنے موقف کے اظہار میں دلائل کے ساتھ مختلف مقتدر اہل قلم کی آراء کو اہمیت دی ہے۔ عام طورپر افسانچہ پر جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور جو بحث ہوتی ہے ان تمام کو یہاں پیش کرکے ان کا حتی الامکان جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ ہی ان سوالوں اور بحثوں سے مثبت پہلو اور تعمیری راہ نکالنے کی سعی کی گئی ہے۔ افسانچہ کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ اس کے فنی لوازمات‘ موضوعات اور دیگر باریکیوں کو بیان کرتے ہوئے اس کا مہاراشٹر کے ساتھ پورے برصغیر میں مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔ اور اس کے مستقبل کے بارے میں بھی اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ وہیں پڑھنے والوں کی سہولت کے پیش نظر اسے مختلف ابواب میں منقسم کردیا ہے تاکہ اس کے ارتقائی سفر کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

افسانچہ کی ابتداء اور فنی نکات کا تفصیلی تنقیدی جائزہ کتاب میں آچکا ہے لہذا اس کے اعادہ کی یہاں گنجائش نہیں ہے البتہ دو ایک باتوں کی وضاحت لازمی سمجھتا ہوں جیسے بنیادی بات افسانچہ کی ابتداء اردو میں کس کے فن پارے سے ہوئی ہے تو میں حتمی طورپر یہ ثابت کرچکا ہوں کہ اردو میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘سے ہی ہوئی ہے۔ اپنے اس موقف کے اظہار میں تقریباً ایک درجن ممتاز ومعروف ارباب نقد وبصیرت کی آراء کی روشنی میں اس اولیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ تاہم کچھ لوگ افسانچہ کے ڈانڈے عربی ادب‘ خلیل جبران کے مقولوں‘ شیخ سعدی کی مختصر حکایتوں‘ مراٹھی کے شنک کتھا اور ہندی کے لگو کتھا سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ مغربی ادب کا ذکر کرتے ہیں اور ایسی مرعوب ذہنیت کے لوگ O’henry اور دیگر ناموں کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اردو میں مختصر افسانہ مغرب کے زیر اثر وجود میں آیا ہے۔ لیکن افسانچہ اردو کی اپنی اپجی صنف ہے۔ اس کی تحریک کسی اور زبان سے نہیں ملتی ہے۔ اس خصوص میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو ہی اولیت حاصل ہے اور حق بہ حق دار رسید کے مصداق یہ حق منٹو کو ملنا ہی چاہیے۔

دوسری اہم بات جس نے افسانچہ کے فن کو نقصان پہنچایا۔ جس کے سبب ناقدین نے اسے وہ اہمیت نہیں دی اور سینئر لکھنے والوں نے بھی اسے مستقل صنف کے طورپر نہیں اپنایا۔ وہ اس کا لطیفہ سے قریب ہوجانا یا محض لطیفہ بن جانا ہے۔ حالانکہ افسانچہ کے فن میں لطیفہ پن کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ کسی فن پارے میں ایک لطیف سے خیال اور لطیفہ سے حسن کے احساس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اس لطیف سے احساس کی سطح مزاح کی صورت ہرگز اختیار نہیں کرسکتی۔ ہاں‘ اس لطیف سے احساس میں طنز کا عنصر مل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس سے افسانچہ کے تاثر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثر میں اور بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ احساس اگر طنز کے بجائے مزاح سے گھل مل جائے تو پورے افسانچہ کی صحت پر اثر انداز ہوکر اسے محض لطیفہ بنادے گا۔ دراصل افسانچہ کو اس فنی خامی کے سبب کافی گزند پہنچا ہے۔ اس فن میں لطیفہ پن در آنے سے بحیثیت صنف اسے وہ قدر ومنزلت اور اہمیت نہیں مل سکی ہے جس کی بجا طورپر یہ مستحق رہی ہے۔ اصل میں افسانچہ کوئی چٹکلہ یا لطیفہ ہرگز نہیں ہے کہ جسے پڑھ کر یا سن کر آپ مسکرادیں‘ ہنس دیں یا پھر قہقہہ لگادیں یہ تو جھنجھوڑ کر رکھ دینے‘ آپ کو چونکا کر حیرتوں کے سمندر میں غرق کردینے‘ بم پھٹنے جیسی کیفیت میں مبتلا کردینے والا فن ہے۔ بقول جوگندر پال (اس کیفیت میں) اس کے ختم ہوتے ہی ایک طویل کہانی پڑھنے والے کے ذہن میں شروع ہوجائے‘ یہی افسانچہ اور لطیفہ پن کا نمایاں فرق ہے اور بنیادی وصف بھی۔ اگر افسانچہ میں بالفرض محال طنز ومزاح کے دونوں پہلو یکساں ہوں تب بھی اس صنف کے لیے لازمی ہوجاتا ہے کہ یہ اپنا ردعمل‘ اپنا تاثر‘ اپنا انجام اس قدر غیر یقینی اور چونکادینے والا بجلی سے جھٹکا دینے والا اور بم پھٹ پڑنے کی کیفیت (پیدا کرنے) والا ہو کہ آپ یکایک ہنسنے کے بجائے اگر رو نہ سکیں تو کم از کم رونے کی کیفیت ضرور محسوس کریں اور اس کیفیت کو دیر تک اپنے اندر قائم رکھ سکیں۔ یہی تاثر افسانچہ کو لطیفہ سے الگ کرکے نمایاں بھی کرتا ہے اور فنی اعتبار سے اسے منفرد بناتا ہے۔ تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے افسانچہ لکھنا مشکل ہے کہ یہ کوئی لطیفہ گھڑ لینے والی بات نہیں ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے کہ افسانچہ سن کر یا پڑھ کر آپ دیر تک عالم تحیّر میں ‘ ایک سکتے کے عالم میں بس سوچتے رہ جائیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے۔ کیا ایسا ہوا ہے؟ اور کیا ایسا ہمارے ساتھ وقوع پذیر نہیں ہورہا ہے؟! شاید اسی لیے افسانچہ میں لطیف پن سے زیادہ طنز کے نشتر کی ضرورت پڑتی ہے اور نشتر کو استعمال کرنے کی صلاحیت اسے فن کی مشاقی سکھاتی ہے کہ افسانچہ دراصل اس قدر compact (مختصر) ہونا چاہیے کہ اس کا Impact (تاثر) پوری شدت سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوکر تادیر قائم رہ سکے۔ بنیادی طورپر یہ فن پارے کی اولین شرط ہے لیکن جب بات بہت مختصر لفظوں میں مکمل طور پر کہنی ہو تب یہ شرط اور بھی کڑی ہوجاتی ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ افسانچہ اور لطیفہ کو شروع سے ہی ہمارے ناقدین نے خلط ملط کردیا ہے اور اتفاق دیکھیے اس غلط بات کی راہ بھی منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے دیباچے ’’حاشیہ آرائی‘‘ سے پڑی یعنی ابتدا میں ہی یہ غلط رجحان پنپ گیا۔ اسے محمد حسن عسکری نے چھوٹے چھوٹے افسانے بھی کہا ہے اور لطیفے بھی۔ جبکہ بقول محمد حسن عسکری ’’فسادات کے متعلق جتنا لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ چھوٹے چھوٹے افسانے ہیں‘‘ تو پھر بتائیے بھلا یہ لطیفے کیسے ہوسکتے ہیں؟! ایک اور جگہ وہ یوں لکھتے ہیں ’’فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ہیں ان میں منٹو کے یہ چھوٹے چھوٹے لطیفے سب سے زیادہ ہولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لطیفے ہیں تو بیک وقت ہولناک اور رجائیت آمیز کیسے ہوسکتے ہیں؟!جبکہ آگے وہ خود لکھتے ہیں ۔ ’’منٹو کے ان افسانوں میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں‘ خوف بھی اور دلاسا بھی۔ ان لطیفوں میں انسان‘ اپنی بنیادی بے چارگیوں‘ حماقتوں‘ نفاستوں اور پاکیزیوں سمیت نظر آتا ہے‘‘۔ پھر آگے لطیفہ قرار دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’’منٹو کے قہقہہ میں بڑا زہر ہے مگر یہ قہقہہ ہمیں تسلی بھی بہت دلاتا ہے‘‘۔ اب اگر یہ مان لیا جائے یہ قہقہہ ہے تو اس میں زہر کیسا اور لطیفہ ہے تو پھر اس میں خوف اور دلاسا کیسے اور کیونکر درآیا ہے۔ اور لطیفہ تسلی کیسے دے سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ چھوٹے چھوٹے افسانے ہی ہیں لطیفے ہرگز نہیں ہیں ورنہ یہ تاثر‘ کیفیت اور کمیت کیسے اپنے اندر رکھ پاتے۔ اسی تحریر میں عسکری آگے خود ان لطیفوں کو افسانہ کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔ اس کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے زندگی سے جڑے ہونے کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’منٹو کے ان افسانوں میں سب سے بڑا وصف معمول زندگی کی قوت اور عظمت کا یہی اعتراف ہے‘‘۔ اس پوری تحریر میں عسکری نے ان چھوٹے چھوٹے افسانوں کو لطیفہ سے گڈمڈ کردیا ہے اور انھیں لطیفہ کہہ کر خود اپنی ہی بات میں ردو قبول کی ایک ایسی غلط فہمی پیدا کردی ہے جو ایک غلط بات کو راہ دینے کا سبب بن گئی ہے اور آگے چل کر ایک بڑی متضاد بات کی بنیاد بن گئی۔ ڈاکٹر ظفر سعید کے الفاظ میں عسکری صاحب نے جابجالفظ افسانہ کے ساتھ لطیفہ بھی استعمال کیا ہے جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ شاید وہ خود بھی یہ طے نہیں کرپائے کہ یہ تخلیقات افسانہ ہیں یا لطیفہ۔یہی وجہ ہے کہ بعد میں وارث علوی جیسے اعلیٰ پایہ کے نقاد نے اسے (منٹو کے سیاہ حاشیے) چٹکلے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ پاکستان کے ناقد ممتاز حسین نے بھی اسے لطیفے قرار دیا ہے اور سید محمد عقیل نے بھی اسے چھوٹے چھوٹے افسانے کے ساتھ لطیفے سے قریب کہہ دیا ہے۔ اسی طرح اکثر سینئر لکھنے والوں کے پاس بھی غیر شعوری طورپر یہ غلط فہمی راہ پاگئی ہے جسے نئی نسل نے تقلیدی انداز میں اپنا کر اسے مزید ہوا دی ہے۔ اکثر نے حکایات‘ مقولے‘ کوئی اخباری اطلاع‘ خبر‘ لطیفہ یا فلسفیانہ موشگافی کو افسانچہ سمجھ لیا اور بنادیا جس کے سبب پڑھنے والے بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوئے اور اس کے قبول عام میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں لیکن اب مسلسل اس کی وضاحتوں سے افسانچہ کے آسمان سے لطیفہ کا ابرآلود مطلع صاف ہوگیا ہے اور قوی امید ہے کہ افسانچہ اپنے فن کے اس اہم عنصر سے لیس ہوکر خود اپنے روشن مستقبل کے امکانات کی گواہی دے گا۔

جہاں تک افسانچہ کے موضوعات کا تعلق ہے تو یہ ابتداء سے ہی اپنے عصر اور سماج سے جڑا ہوا ہے۔ آج جبکہ انفارمیشن تکنالوجی کی ترقی کے سبب پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس عالمی گاؤں میں صارفیت کے نظام کا بول بالا ہوگیا ہے جس کے سبب انسان مشین بن کر رہ گیا ہے۔ بے حسی‘ خود غرضی‘ نفسانفسی‘ بے ایمانی اور بے راہ روی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ظلم وجبر نے دہشت گردی کو ہوا دی ہے اور دہشت گردی پھیل کر سپرپاور کی ایک ایسی طاقت بن گئی ہے جو دہشت گردی کی دہائی دے کر خود اس کے بل بوتے پر اپنی طاقت آزماتا رہا ہے۔ فرقہ پرستی کا زہر پوری فضا میں ہر جگہ پھیل گیا ہے۔ اقتدار کی بے جا ہوس میں ہمارے لیڈروں نے اسے اپنا ہتھیار بنالیا ہے۔ انسانوں کے بیچ ذات پات‘ مذہب‘ زبان اور علاقائی تقسیم کے نام پر اپنی دوکانیں خوب چمکائی ہیں۔ اعلیٰ قدروں کی ٹوٹ پھوٹ ہوچکی ہے اور تہذیبوں کے تصادم کے نتیجے میں انسان اپنے سماج اور معاشرے سے کٹ کر صرف اپنے گھر کی حد تک ‘ اکثر صورتوں میں اپنی ذات کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اسے سوائے اپنے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح خونی رشتوں کی بھی شکست وریخت ہوچکی ہے۔ مفلسی‘ غریبی‘ بے روزگاری نے کئی مسئلوں کو جنم دیا ہے وہیں اس کے عفریت نے اخلاقی قدروں اور تہذیب کی اعلیٰ بلندیوں کو نگل کر کئی برائیاں پیدا کردی ہیں جس کی ایک بڑی مثال آج معاشرے میں پھیلی جنسی بے راہ روی سے دی جاسکتی ہے۔ جھوٹ مکر وفریب‘ وعدہ خلافی اور اس قبیل کی بہت ساری برائیاںمعاشرہ کا روز مرہ بن چکی ہے۔ معاشرے میں جہیز کی بیماری لاعلاج مرض بن کر وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔بے ایمانی ہمارا ایمان بن چکی ہیں۔ لوٹ مار‘ رشوت خوری عام ہوچکی ہیں۔ دھوکہ دہی فیشن ہوگیا ہے۔ منافقت تہذیب بن گئی ہیں۔ غرض یہ تمام برائیاں عام ہوکر رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے کا چلن بنتی جارہی ہیں اور پھر رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ نے پوری کردی ہے۔ اس نے تو نئی نسل کی اخلاقی اور معاشرتی تہذیب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پورے معاشرے کے ساتھ میڈیا کا کھلواڑ بڑی شدت سے جاری ہے۔ ان تمام حالات اور ان تمام عوامل کو اس کے وسیع تر پس منظر میں تقریباً سبھی افسانچہ نگاروں نے اپنے اپنے افسانچوں میں پیش کیا ہے اور عصری آگہی‘ عصری حسیت کی اصطلاح ان معنوں میں وسیع سے وسیع تر ہوکر ان تخلیقات میں جابجا نظر آتی ہے۔ جو پڑھنے والوں کو اپنے اختصار اور ایجاز کے سبب متاثر کرتی ہے اور متوجہ بھی۔ اس طرح اب اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہے کہ ان مختصر تحریروں کے حوالے سے ایکبار پھر پرنٹ میڈیا سے نئی نسل کا ایک بڑا حلقہ جڑ سکتا ہے۔ جو آج کے میڈیا کے دور میں یقینا اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب ہوگا۔

اپنے اس تحقیقی کام کے آواخر میں خیال ہوا کہ اس سلسلے میں چند سینئر افسانہ نگاروں کو‘ جو اس صنف میں اپنی نمایاں خدمات رکھتے ہیں۔ ان کی گرانقدر آراء سے استفادہ کیا جائے۔ میرے اس خیال کو اس وقت بڑی تقویت ملی جب میں نے ان سے آراء طلب کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خطوط کا تانتا بندھ گیا۔ یہ دیکھ کر بیحد مسرت ہوئی اور میرے اس کام کو ایک نئی سمت ورفتار اور مجھے ایک نئی توانائی کا احساس ہوا کہ ان حضرات نے مجھے اپنے افسانوی مجموعے روانہ کیے اور اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پرخلوص تاثرات کے ساتھ ساتھ گرانقدر آراء و مفید مشوروں سے نوازا اور ان ہی رہنما خطوط کی روشنی میں اپنے اس کام کو میں پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکا ان تمام کا شکریہ ادا کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ان میں خاص طورپر محترم طالب زیدی (میرٹھ) اور اقبال انصاری (دہلی) جیسے مقبول و معروف افسانہ نگار جنھوں نے اس صنف میں اپنے مجموعے بالترتیب ’’پہلا پتھر‘‘ اور ’’ابھی‘‘ کی کوئی جلد فاضل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زیراکس کاپی بطور خاص روانہ کی۔ وریندر پٹواری نے اپنے مصر کے دوران قیام شہر قاہرہ سے اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے خلوص نامے سے نوازا اور دہلی پہنچنے کے بعد پہلی فرصت میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ افسانچوں کے ساتھ گرانقدر مشوروں سے فیض یاب کیا۔ اور افسانچوں کا علیحدہ مجموعہ شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔اسی طرح آنند لہر (جموں) ، کوثر صدیقی (بھوپال)، نسیم محمد جان (موتیہاری)، علیم صبا نویدی (مدراس)، ڈاکٹر خان ارمان (کان پور) اور ڈاکٹر اسلم جمشید پوری (میرٹھ) اور دیگر کئی نامور اہل قلم نے اپنے مجموعے فوری طورپر بھیج کر میری بھرپور معاونت کی۔ اسی طرح آنند لہر اور مناظر عاشق ہرگانوی نے اس صنف میں اپنے مجموعہ شائع کرنے کی میری تحریک کو بڑی محبت سے قبول کیا اور جلد ہی مجموعہ شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ ہی مناظر عاشق ہرگانوی صاحب نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروانے کا وعدہ کیا (جواب محترمہ نظیر فاطمہ اردو میں افسانچہ نگاری کے موضوع پر تحقیقی کام کرکے پورا کررہی ہیں) اور اپنے گرانقدر رشحات قلم سے بھی نوازا (جو اس کتاب میں شامل ہیں)۔ ممتاز شاعر اور مدیر اسباق نذیر فتح پوری نے میری تحریک پر اپنا مجموعہ ’’ریزہ ریزہ دل‘‘ کے نام سے شائع کیا‘ جسے احقر نے مرتب کیا ہے۔ جو ادبی حلقہ میں کافی مقبول ہورہا ہے۔ اسی طرح محمد خالد عبادی، اکبر عابد، محمد ارشد صدیقی اور فیروز خاں نے اپنے ترتیب شدہ مجموعوںکے مسودے پیش لفظ لکھنے کے لیے مجھے روانہ کیے ۔ میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ اسی طرح نور شاہ(کشمیر)، احمد صغیر(گیا)، اقبال حسن آزاد (مونگیر)، مشتاق اعظمی، نذیر احمد یوسفی(اسنسول کلکتہ)، سکندر حمید عرفان (کھنڈوہ)، رونق جمال (چھتیس گڑھ) نے اپنے اس زیر ترتیب مجموعوں سے اپنے منتخب افسانچے روانہ کیے ان سب کا بھی میں مشکور ہوں۔ ایک بار پھر ان تمام افسانہ نگاروں/ افسانچہ نگاروں اور دیگر احباب کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں اور اس پورے سلسلے کو اپنے کام کی پذیرائی کا بین ثبوت سمجھتا ہوں جو بعد میں یقینا اس صنف کو مزید مستحکم کرکے اس کی مقبولیت میں اوربھی زیادہ اضافہ کا جواز پیش کرے گا انشاء اﷲ۔

ایک بات اور۔ ۔ ۔ میں نے ملک بھر کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں شائع ہوئے تقریباً سبھی لکھنے والوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور مجموعی اعتبار سے برصغیر کے پس منظر میں اپنے اس جائزہ کو پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی برصغیر کے حوالے سے دیار غیر میں(مشرق وسطیٰ ومغربی ممالک) آباد اردو کی نئی بستیوں کے قلمکاروں کی شمولیت سے اسے عالمی انتخاب کی سطح پر ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ جو اس کی ابتدا یعنی ۱۹۴۸ء سے ۲۰۰۸ء تک کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم ایک آدھ مجموعے کا نام چھوٹ جانے یا کسی کا ذکر نہ ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ محترم جوگندر پال کے بقول ’اس صنف پر میرا یہ پہلا کام ہے اور اس بات سے انکار کی گنجائش اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس موضوع پر باقاعدہ کوئی کتاب اب تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ اس اولیت کا اعتراف میرے ساتھ کے سبھی لکھنے والوں نے بھی کیا ہے اور پال صاحب نے تو مجھے اس سند سے نواز دیا ہے۔ تاہم میں امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ اور آگے بڑھے گا اور تحقیق وتنقید کی نئی راہیں کھلیں گی کہ بقول ولیؔ اورنگ آبادی ؂

راہ مضمون تازہ بند نہیں تاقیامت کھلا ہے بابِ سخن

لہذا اس صنف کے فروغ سے تحقیق و تنقید کے نئے باب بھی وا ہوگے کہ ہر صنف از خود اپنا جواز فراہم کرتی ہے۔ اپنے پھلنے پھولنے کے اسباب بھی مہیا کرتی ہے۔ بہرحال اس طرف ناقدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آخر میں ان تمام احباب کا ایکبار پھر تہہ دل سے ممنون ہوں جن کی معاونت کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ ہوتی۔ اپنی اس کتاب پر جو میری پہلی تحقیقی وتنقیدی کتا ب ہے آپ کی گرانقدر رائے اور دلی تاثرات کا منتظر رہوں گا 

تاکہ ان آراء کی روشنی میں اپنے تخلیقی اور تنقیدی سفر کو مزید آگے بڑھاسکوں۔

 عظیم راہی


اورنگ آباد


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 785