donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Wusate Nazar Dekhiye Ham Jins Paraston Ki


وسعت نظر دیکھیے ہم جنس پرستوں کی


زبیر حسن شیخ


مغربی افکار کے پروردہ مسلمانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہر ایک قدرتی  واقعہ یا حادثہ کی توجیہ  سائینسی پس منظر میں تلاش کرتے ہیں ، لیکن جہاں سائینس  بے بس نظر آتی ہے وہاں مذہب اور اہل مذہب، اور خاص کر اہل ایمان کی مخالفت میں  تیر و تفنگ اٹھا لیتے ہیں- تخصیص و تعمیم کے اصولوں سے احتراز کرتے ہیں – اخلاقی امراض اور جسمانی  امراض میں تفریق نہیں کرپاتے. اہل علم کی درمیانی صنف میں انکا شمار ہوتا ہےنا کہ ان اولوالالباب میں جو عدل و انصاف اور  حکمت و بصیرت سے انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں، اور جو نیوٹن، ہومز، راجر بیکن، فرائیڈ، آئینسٹاین، کومتے، والتیر اور ڈارون کو اس لئے نہیں پڑھتے کہ ان پر ایمان لے آئیں ، بلکہ اس لئے پڑھتے  ہیں کہ جن اصول و ضوابط پر ان حضرات نے تحقیق کی ہے انہیں اپنے ایمان کے ترازو میں تولیں اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کر لیں. پھر دنیا کے سامنے حق پیش کریں. سائینسی علوم کے دلایل سے اخلاقی اصولوں کو منضبط نہ کریں جو ایک احمقانہ فعل ثابت ہوا ہے - اس بات سے کسی کافر کو ہی انکار ہوگا کہ جدید علوم نے انسان کے جسمانی امراض کی تحقیق  اور اسکے علاج و معالجہ  میں خاطر خواہ کام کیا ہے ، گر چہ ابھی نا مکمل ہے، اور  اس بات سے بھی کو ئی کافر ہی انکار کرے گا کہ جسمانی امراض کا حل جدید علوم سے قبل بھی موجود تھا لیکن اخلاقی امراض کا حل جدید علوم آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے ، اور مغرب میں  اخلاقی  امراض  کا تناسب جس کا مبین ثبوت ہے. اخلاقی امراض کا حل دنیوی اور آخرت کے حساب کتاب کا یا  خدا کو  جوابدہی کا  اگر محتاج نہیں ہے  تو پھر مصائب و آلام اورآسمانی آفتوں کے نزول کی روک تھام کا کوئی حل جدید علوم کے پاس ضرور  ہونا چاہیے.  اور اگر نہیں ہے،  اور یقینا نہیں ہے،  اور نہ کبھی ہوگا،  تو انسانی بھلائی کی خاطر خدائی طاقت پر یقین کرنا ہی ہوگا ،   دین فطرت پر   کامل ایمان  رکھنا ہوگا  –   ورنہ مختلف خارجی  وجوہات کی بنا پر انسان کا  مصائب و آلام میں مبتلا ہونا ساینسی  توجیہات    سے ثابت تو کیا جاسکتا ہے لیکن انکا سد باب   کرنے سے ساینس قاصر  رہی  ہے - اور  انسان  کے لئے ضروری ہوا ہے کہ وہ    اخلاقی  اصولوں  میں ان کا  حل  تلاش کرے ، جو فی الحقیقت سائینس کے  علاقہ  عمل و دخل  سے  دور ہے ، اور جو  انسانی  اخلاقی  اصولوں  کے دائرہ  اختیار  میں آتا ہے  ، یعنی عقاید کے  ، جو  دین و مذہب کی دین ہے –  اور اخلاقی اقدار کا سب سے بہتر پیمانہ دین فطرت  کے پاس ہے .  مذہب مخالف جدید علوم کے علمبردار آج تک اس بات کا جواب نہ دے سکے کہ  اگر  کائنات کا سارا نظام ایک  "پرفیکٹ " سائینسی اصول کے تحت کام کرتا  ہے اور آسمانی آفتوں کا نزول محض "اجزا کا پریشاں ہونا " ہے  اور کچھ نہیں. اور لینن کا یہ کہنا کہ ہم ایسے تمام اخلاقی ضابطوں کا انکار کرتے ہیں جو انسانوں سے ماورا کسی طاقت سے اخذ شدہ ہیں،  ہیکس لے  کا یہ کہنا کہ فلکی نظام کو خدا ئی مفروضہ کی ضرورت نہیں، کومتے کا کہنا کہ ما بعد الطبیعات کے اصولوں میں خدا کا وجود غیر ممکن ہے، ہیوم اور رسل کا نظریہ کہ خدا کے وجود کا نظریہ کمتر معلومات کی دین ہے. اور اسی طرز فکر پر سینکڑوں اہل مغرب اور مغرب زدوں کا یہ ماننا کہ خدا کی خدا ئی سے انکار کرنا   کامل علم کی دلیل ہے اور اور اہل فکر و نظر کو اسی میں انساینت کی بھلا ئی نظر آتی ہے وغیرہ وغیرہ ...... تو پھر ان  ماہر علو م اور انکے پیروکار وں نے آج تک آسمانی آفتوں سے نجات کا کوئی حل کیوں نہیں تلاش کرلیا، اور انسانیت کو مصائب و آلام سے نجات کیوں نہیں دلا  سکے -


تمہید کے پس منظر میں یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ تخصیص کے اصولوں کے تحت ایک انسان ذہنی یا جسمانی طور پر معذور پیدا ہوسکتا ہے بلکہ ہر دور میں پیدا ہوتا آیا ہے اور ہر قوم اور ہر طبقہ میں ہوتا ہے.  لیکن کو ئی احمق ہی ہوگا جو ایسی کسی معذوری کو اخلاقی مرض میں مبتلا ہونے کی مجبوری قرار دے،  یہ طرز فکر اہل مغرب اور تہذیب جدیدہ کی دین ہے.  پیدایشی طور پر کسی انسان کا فطری تقاضوں سے مبرا ہونا، یا  بطور  زنخہ پیدا ہونا، یا کسی عورت یا مرد کا جنسی تقاضوں سے مبرا ہونا کو ئی نئی بات نہیں ہے. مختلف قسم کے جسمانی طور سے معذور انسان ہر دور میں ہر جگہ پیدا ہوتے رہے ہیں اور یہ بات بھی ساینس اور مذہب سے ثابت ہے کہ اکثر ایسے  انسان کسی نہ کسی طور زندگی کو اخلاقی اقدار کی پامالی کے بغیر مثبت طور پر گزارتے رہے ہیں.  بلکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہویے ہیں جو اوسط انسان سے بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں. پیدایشی طور پر کو ئی انسان اخلاقی طور سے معذور ہوا ہو یا اخلاقی امراض میں مبتلا ہو یہ آج تک ساینس ثابت نہیں کرسکی. اور مذہب خاصکر اسلام تو اس طرز فکر کا روادار ہی نہیں ہے. کوئی اسٹیفن ہاکن ایسا نہیں ہوا جسے جسمانی معذوری نے اخلاقی معذروی میں مبتلا کردیا ہو !!  پھر کیا وجہ ہے کہ مغربی علوم کے علمبردار ہم جنس پرستی کے لیے کو ئی سائینسی توجیہہ تلاش کرنے کی کوشش کریں. ہم جنس پرستی ایک اخلاقی مرض ہے  نا کہ جسمانی مرض یا پیدایشی عیب،  یا غیر اخلاقی اعمال  میں ملوث  ہونے کا جواز-   ہا ں  تہذیب  غلیظہ  اور علوم جدیدہ  کے علمبردار  اسے  نفسیاتی امراض میں شمار کرسکتے  ہیں جیسے وہ اکثر جنسی  اور بے حیائی سے پیدا شدہ  امراض کو کرتے آیے ہیں.


بقول مذہب بیزار مغربی علوم کے علمبردار ،  سائینس نے ثابت کردیا ہے کہ مذہب تاریخ کا بد ترین ڈھونگ ہے تو مذکورہ بالا دلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ علوم جدیدہ  خاصکر مغربی علوم کے اصول و ضوابط ،  اخلاقی اقدار کے لئے ایک مذاق سے کم نہیں-  بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ  انکے اکثر اصول  انسانیت کے لئے  ناسور  ہیں  جو  ہم جنس پرستی کی شکل میں نمودار ہوئے  ہیں ، اور  جنہیں مغربی ماہر علو م    انسانی حقوق  اور  جمہوریت کے  لبادے میں   لپیٹ  کر  ناک پر رومال رکھ   بیٹھے ہیں  ،  اور جو مغرب زدہ ہیں وہ  انسانی ہمدردی  کے گلابوں  سے  اس  ناسور سے پھیلنے والے تعفن کا علاج چاہتے ہیں-

وسعت نظر دیکھیے ہم جنس پرستوں کی ---- قوم لوط کو داماں کی تنگی ہو گئی

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 591