donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zahid Hena
Title :
   Woh Unani Jo Pakistan Me Paida Hua

وہ یونانی جو پاکستان میں پیدا ہوا

 

زاہدہ حنا   


ان سے میری پہلی ملاقات کئی برس پہلے اسلام آباد کی کسی ادبی کانفرنس میں ہوئی اور یہ ایک گہری دوستی میں بدل گئی۔ ان برسوں کے دوران ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں، کبھی لاہور اور کبھی اسلام آباد میں لیکن ہم نے فون پر ایک دوسرے سے طویل باتیں کیں ۔ اس تعلق خاطر کا بنیادی سبب یونان تھا، وہ یونانی تاریخ، ادب اور فلسفے کے عاشق تھے ۔ میں نے 16 برس کی عمر میں چھپنے کا آغاز، ’یونان… دورِ جدید کا پیش رو‘ سے کیا تھا ۔ یونان کے ادیبوں اور فلسفیوں سے یہ گہری وابستگی ہم دونوں کے درمیان تعلق کی ایک ریشمی ڈور تھی ۔

وہ احمد عقیل روبی کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔ اپنی ادبی زندگی کی ابتداء انھوں نے شاعری سے کی ۔ شاعری انھیں فلمی دنیا کے کوچے میں لے گئی جہاں انھوں نے یاد رہ جانے والے گیت لکھے ۔ ان کا بڑا کام یونانی ادب اور فلسفے سے متعلق تھا ۔ ’یونان کا ادبی ورثہ‘ علم و ادب کے معمار، فاہیان اور کئی دوسری کتابوں کی تحقیق و تحریر میں انھوں نے اپنی آنکھوں کا تیل جلایا ۔ میں ان سے شرمندہ ہوں کہ ان کے بارے میں اتنی تاخیر سے لکھ رہی ہوں اور دیر تو اس حوالے سے بھی ہوگئی کہ انھوں نے اپنی کئی کتابوں سے مجھے نوازا، میں ان پر لکھنے کا ارادہ باندھتی رہ گئی اور وہ سامان سفر باندھ کر چل دیے ۔ احمد عقیل علم و ادب میں پیرے ہوئے ایک ایسے انسان تھے جس نے ہمارے خرد دشمن سماج کو فلسفے اور تاریخ کے بارے میں کئی ایسی کتابیں دیں جو پڑھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ۔

10 دسمبر 2012 کی تاریخ کا دستخط شدہ ان کا ناول ’’ساڑھے تین دن کی زندگی‘‘ موصول ہوا تو میں نے اسے ایک نشست میں پڑھ ڈالا ۔ اس ناول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک پاکستانی استاد اپنے چند شاگردوں کے ساتھ سیر کے لیے نکلتا ہے اور ایک گپھا سے گزر کر ماضی کے یونان میں جا پہنچتا ہے ۔ رات کے اندھیرے کو مشعلوں کی روشنیاں نگل رہی ہیں ۔ اونچے چبوترے پر دیویوں اور دیوتاؤں کے مجسمے رکھے ہیں ۔ نشت پر مخمل کی چادر ہے جس پر سونے اور چاندی کے تاروں سے کشیدہ کاری کی گئی ہے اور اس چادر پر ایک داستان گو مسند نشین ہے جو ٹرائے کی دس سالہ جنگ کے بعد گھر لوٹنے والے بہادر جرنیل او ڈیسس پر گزرنے والے مصائب کا قصہ سنا رہا ہے ۔ روبی کے اس ناول میں ہماری ملاقات ارسٹو فینز، سولن، سقراط اور افلاطون سے ہوتی ہے ۔ 21 ویں صدی عیسوی کے ذہین اور حسین افراد ڈھائی ہزار برس پہلے کے لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں ۔

ادبی اور علمی بحثیں ہیں ۔ دلچسپ مکالمے ہیں ۔ اپنے اس ناول میں روبی نے لکھا کہ جب سقراط نے زہر کا پیالہ  پیا تو اس کے چہیتے شاگرد افلاطون کی جان خطرے میں پڑ گئی ۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دنوں کے لیے تم دنیا کی سیر کو نکل جاؤ ۔ وہی اختیاری جلاوطنی کا معاملہ جو آمریت کے دنوں میں ہمارے کئی حکومت مخالف دانشوروں اور ادیبوں کا مقدر بنا ۔ اس ضمن میں روبی صاحب  نے لکھا کہ افلاطون نے ایتنھز سے سسلی، اٹلی اور پھر ہندوستان کا رخ کیا ۔ وہاں کے پنڈتوں اور گیانیوں سے بحث مباحثہ کیا اور پھر واپس آکر کچھ مقالے لکھے ۔ افلاطون کے ہندوستان آنے کی بات میرے نزدیک محض ایک کہانی تھی ۔ میں نے فوراً انھیں فون کھڑکا دیا اور ان کے اس دعوے کا حوالہ مانگا ۔

پوچھنے لگے تمہارے پاس ول دیوراں کی ’داستان فلسفہ‘ ہے ۔ میرا جواب اثبات میں تھا ۔ کہنے لگے اس میں تلاش کرو۔ میں نے ’داستان فلسفہ‘‘ کی ورق گردانی کی ۔ اس میں تحریر تھا کہ 399 قبل مسیح میں افلاطون سیر و سیاحت کے لیے چل نکلا ۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں گیا ۔ وہ کوئی موڑ بھی مڑتا ہے تو محققوں میں اختلافات کا ہنگامہ بپا ہوجاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ مصر گیا ، پھر بحری سفر کرتا ہوا صقلیہ (سسلی) پہنچا، وہاں سے اطالیہ (اٹلی) کی سیر کو نکلا ۔ بارہ برس کی اس سیر کے دوران کہا جاتا ہے کہ وہ دریائے گنگا کے کنارے تک بھی پہنچا ۔ وہاں اس  نے ہندوؤں کے دھیان گیان کے گر سیکھے ۔

اس کے بعد ول دیوراں لکھتا ہے کہ لیکن اس بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ میں نے انھیں ایک بار پھر فون کیا اور کہا کہ افلاطون کے ہندوستان آنے کے بارے میں ول دیوراں نے کوئی مصدقہ بات تو نہیں کی ہے ۔ کہنے لگے بی بی، ول دیوراں جیسا مورخ اور دانشور، غیر مصدقہ بات بھی لکھے تو وہ تقریباً مصدقہ ہوجاتی ہے ۔ میں نے ان کے اس جملے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ۔ یوں بھی وہ یونان کی تاریخ نہیں ناول لکھ رہے تھے جس میں ماضی کی طرف کے ایک سفر کا قصہ تھا ۔ داستان اور کہانی تو وہ شے ہے جس میں ایسی چھوٹ مل ہی جاتی ہے ۔ میں نے جب یہ بات کہی تو بہت خوش ہوئے ۔

وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بنیادی طور پر امید پرست ہوتے ہیں ۔ مسکراتا ہوا چہرہ، شگفتہ انداز گفتگو اور تحریر کا من موہنا انداز ۔ انھوں نے افسانے اور خاکے لکھے ، تحقیقی کتابیں لکھیں ۔ وہ کم عمری سے یونان کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے ۔ اسی عشق کی بنا پر انھیں یہ شوق تھا کہ ان کے عہد کے نوجوان بھی دنیا کے عظیم لکھنے والوں سے واقف ہوں، اسی لیے وہ یونانی فلسفیوں، ادیبوں اور شاعروں پر لکھنے میں جٹ گئے ۔ ایتھنز ایک ایسا شہر تھا جس کی کل آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی ۔

ان میں ڈھائی لاکھ غلام، 80 ہزار غیر ملکی اور ایک لاکھ 20 ہزار ایتنھز کے اصل شہری تھے ۔ ان میں سے تقریباً 40 ہزار آزاد شہری حکومت کے معاملات کو چلاتے تھے ۔ ہزاروں عورتیں اور بچے کسی شمار قطار میں نہیں تھے ۔ ان لوگوں کو معلوم ہوتا کہ ڈھائی ہزار برس بعد ایک یونانی، پاکستان میں پیداہونے والا ہے تو وہ اپنے شہریوں کی فہرست میں احمد عقیل روبی کے نام کا ضرور اندراج کرتے ۔ اس ایتھنز نے کیسے کیسے نابغہ روزگار پیدا کیے جن پر ساری دنیا ناز کرتی ہے ۔ عقیل احمد روبی اس یونان پر ہزار جان سے عاشق ہوئے اور اس کے بارے میں لکھ کر انھوں نے دفتر کے دفتر سیاہ کردیے ۔

انھوں نے دوسروں کے خاکے لکھے اور ایک خاکہ اپنا بھی تحریر کیا۔ ان کا پیدائشی نام غلام حسین سوز تھا۔ پھر وہ احمد عقیل روبی ہوگئے۔ انھیں جب ملازمت مل گئی تو انھوں نے اپنی بوڑھی ماں کو آرام کرنے کے لیے کہا، احمد عقیل روبی لکھتے ہیں کہ ’’میں نے سفر شروع کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے ساتھ ساتھ کوئی چل رہا ہے۔ میں بولتا تو وہ میرے لفظ کاٹتا، میں سوچتا تو وہ اپنی فکر میری فکر میں انڈیل دیتا ، اس نے میری آواز بدل دی، اس کے سوچنے کا انداز مجھ پر غالب آگیا، چلنے کے راستے بدل دیے اور ایک دن آیا، اس نے میرا نام بھی بدل دیا بلکہ یوں کہیے کہ مجھے پس منظر میں دھکیل کر خود آگے آگیا ۔ میرے اس دشمن اور قاتل کا نام احمد عقیل روبی ہے ۔

احمد عقیل روبی نے داستانوں کا جن بن کر مجھے مکھی بنا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے ۔ میں دیوار کی مٹی چاٹ چاٹ کر زندگی گزار رہا ہوں ۔ یہ ایک خود غرض آدمی ہے، جہاں کام کرتا ہے وہاں مجھے لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آنے دیتا ، سرکاری کاغذوں میں ، میں اہم ہوں، اس کی حیثیت ثانوی ہے مگر یہ مجھے عام لوگوں سے مخفی رکھتا ہے ۔ تنخواہ والے دن میرا ہاتھ پکڑ کر دفتر لے جاتا ہے ، دستخط کر کے تنخواہ خود وصول کرتا ہے اور میں پھر  وہی مکھی، دیوار اور مٹی ۔ شادی والے دن اس نے مجھ سے عجیب چال چلی ۔

نکاح نامے پر اپنا نام لکھا کر نکاح پڑھوالیا ۔ اس کے گرو سید سجاد باقر رضوی لاکھ چلائے کہ غلام حسین سوز کو بلواؤ مگر یہ انھیں بھی باتوں سے بہلا گیا ۔ میں اس لیے نہیں بولا کہ لڑکی والوں کا گھر تھا سارے شہر میں بات کا بتنگڑ بنے گا ۔ اب بھی اگر میں عدالت میں آواز اٹھاؤں تو اس کی نجی زندگی میں قیامت برپا کرسکتا ہوں ۔‘‘ غلام حسین سوز نے احمد عقیل روبی کے خلاف کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا اور ہنستے کھیلتے اس دنیا سے چلے گئے ۔

ہمارے یہاں جانوروں کی کہانیاں لکھنے کے حوالے سے رفیق حسین کا شہرہ ہے۔ احمد عقیل روبی نے بھی جانوروں کی کہانیاں لکھیں اور ان کا مجموعہ ’جناور کتھا‘ کے نام سے سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر جانور اور پرندے ہماری مطلبی اور مادہ پرست دنیا سے ہجرت کرجائیں تو یہ دنیا ایسا گنبد بے در بن جائے جہاں چپ اور اداسی کی دیمک چاٹ چاٹ کر ہمیں مٹی بنادے ۔ مٹی بن جانے کے اس خوف نے مجھ سے ’جناور کہانیاں‘ لکھوائی ہیں ۔‘‘

ہم اداس ہوں یا نہ ہوں ، ہم سب کو مٹی میں مل جانا ہے ۔ عقیل بھی مٹی کا حصہ بن گئے ۔ ہمارے درمیان یونان کو اس طرح ہمک کر یاد کرنے والا کوئی دوسرا نہیں آئے گا ۔ قدیم یونانیوں کو بھلا گمان بھی کب ہوگا کہ ان کے گزر جانے کے ڈھائی ہزار برس بعد کوئی یونانی پیدا ہوگا جو ماضی کے اپنے ادبی ورثہ کو محفوظ کرجائے گا اور دنیا سے جاتے ہوئے اس سکون کے ساتھ جائے گا کہ دیوتاؤں نے جو کام تفویض کیا تھا، اسے وہ مکمل کر کے جا رہا ہے ۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 728