donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Kya Ham Urdu Ke Qanuni Nefaz Me Nakaam Hain


کیا ہم اپنی تہذیبی وراثت اردو  کے قانونی کے نفاذ میں ناکام ہیں؟


محسن اردو ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کے درد کو محسوس کر پائیں گے

 

 ٭ریاض عظیم آبادی  

 

    بہار کی اردوآبادی کے لیے۱۷؍ اپریل ایک تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ۳۶سال قبل حکومت بہار نے ایک حکم نامے کے ذریعہ بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔بہار اردو اکادمی نے صرف اخباری اعلان کے ذریعہ’اردو کا نفاذ اورہم ‘کے موضوع پر ۱۷؍ اپریل کو ایک جلسے کا اعلان کر دیا۔ ’یوم احتساب‘کے طور پر منعقد اس جلسے کی صدارت شفیع مشہدی نے کی۔پٹنہ میں درجنوں کالج اوراسکول ہیں لیکن ان کے اساتذہ کو جلسے میں آنے کی توفیق نہیں ہوئی۔درجنوں روزناموں کے مالکان اور مدیران بھی پرسرار طور پر غائب تھے۔اردو تحریک کو عوامی دہلیز تک لے جا نے والے غلام غوث معروف ا فسانہ نگار شوکت حیات،ڈاکٹر اعجاز علی ارشد،معروف شاعر حسن نواب حسن،ڈاکٹر ریحان غنی،رضوان اصلاحی،ایم ٹی خان،عبدالرحمٰن سرور،ظفر سلطان،محمد اسلم،عظیم الدین انصاری،خواجہ اکرام،اسحاق اثر،قیام الدین ،ذیشان کلیم اور درجنوںافراد نے اپنی کاوشوں و کمزوریوں کا اظہار کیا۔میں نے محسن اردو ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کو نظر اندان کیے جانے کا سوال اٹھاتے ہوئے انکے لیے ایک تجویز منظور کرنے کی گزارش کی۔لیکن مصلحت پسندی اور کرسی جانے کا  خوف غالب آگیااور سچ کا اعتراف کرنے یا سچ کہنے کی ہمت کسی نے نہیں دکھائی۔

    میں ڈاکٹر مشرا سے ملنے انکی رہائشگاہ پہنچا تو حسب معمول تپاک سے ملے۔انہیں احتسابی تقریب کی رپورٹ مل چکی تھی۔کہنے لگے…’آپ اردو والے اپنی تہذیبی وراثت اردو کے مقدمہ کو آگے بڑھانے میں ناکام  ہیں۔۳۶ برس میں ایک بھی بحالی نہیں ہو سکی اور نہ ہی قانون اردو کے نفاذ میں کوئی پیش قدمی ہوئی۔۳ گھنٹے کی مٹنگ  آپ کے علاوہ کسی  میرا نام تک نہیں لیا۔‘ میرا سر شرم سے  جھک گیا۔
    آج اردو بہار کی  دوسری سرکاری زبان ہے۔مدارس کے اساتذہ سرکاری اسکولوں کے مساوی تنخواہ پا رہے ہیں۔بہار کے سبھی اضلاع ،سب ڈویزنوں اور بکاکوں میں اردو کے مترجم  نائب مترجم اور ٹائپسٹ کام کر رہے ہیں۔یہ صرف میری حکومت کا کارنامہ ہے۔بہار اردواکیڈمی نے قانون اردو کے نفاذ پر مٹنگ بلائی لیکن مدرسہ والوں کو احساس تک نہیں ہوا۔انہوں نے بتایا کہ اردو کے سلسلے میں لالو پرساد سے بات کی تھی جب وہ وزیر اعلیٰ تھے جواب دیا تھا …ڈاکٹر صاحب جو لوگ آپ کے نہیں ہوے وہ میرے ہو جائیں گے؟ میں یہ بات سنکر پانی پانی ہو گیا۔ تو کیا ہم اردو والے احسان کش ہیں،اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ڈاکٹر مشرا پٹنہ میں موجود تھے لیکن مصلحت پسندی نے ہم احسان مندی کے جذبہ کو خاموش کر دیا۔انہیں بلانا تو دور کی بات رہی میرے علاوہ کسی نے انکا نام تک نہیں لیا۔ہم آج چاپلوسی کے دور سے گذر رہے ہیں،احسان فراموشی کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ پٹنہ کے میر افضل امام اردو داں ہیں ،تین مرتبہ میں نے ان سے وعدیٰ لے چکا ہوں کہ وہ پٹنہ کی سڑکوں پر لگائے گیے سبز رنگ کے بورڈوں اردو میں بھی لکھنے کا حکم صادر کر دیںگے۔لیکن انہوں نے اپنی زبان اور اپنی مادری زبان  سے وفا نہیں کیا۔

    یہ تو مشتاق نوری تھے جنہوں جلسہ منعقد کرا دیا لیکن ہمارے اندر اپنی ذمہ داری کا احساس پیدہ ہوا؟جب تک ہمارے اندراپنی مادری زبان کے تئیں اپنے فرائض  کا خیال نہیں آئگا اور اپنے آپ سے درج ذیل عہد نہیں کر لیتے اردو کا فروغ کیسے ہوگا؟

    ۱۔ایسی تمام تقریبات(شادی ،ادبی محفل،جلسے وغیرہ) کا بائکاٹ کریں جسکے کارڈ میں اردو شامل نہ ہو۔

    ۲۔اردو کا ایک روزنامہ خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
    ۳۔مہینہ میں اردو کا ایک رسالہ ضرور خریدیں۔
    ۴۔اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم لازمی طور پر دلوائیں۔
    ۵۔اردو کتابوں کا  مطالعہ کریں۔
    ۶۔اپنی دوکانوں  کے سائن بورڈوں میں  اور گھروں کی نیم پلیٹ میں اردو کو شامل کریں۔
    ۷۔ خطوط کے پتے اردو میں بھی لکھیں۔

    ان سات نکات کے ہمیں عہد تو کرنا ہی ہوگا۔اردو کے ملازمیں اس بات جواب دینا ہوگا کہ اتنے سالوں میں اردو آبادی کو ’اردو‘ میں درخواست دینے کے لیےmotivateکرنے میں کیوں ناکام رہے۔زبان زندہ رہے گی تبھی تو اردو  کا جشن منایا جا سکے گا۔یہ کام انجمن ترقی اردو کا تھا مگر انجمن پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو صرف بیان دیگر طیر رقم کی سرکاری گرانٹ کو ہضم کر جانے کا جواز ثابت کر دیتے  ہیں۔ہماری زبان سے محبت،اپنی زبان کے لیے ذمہ داری کا احساس قانون اردو کا عملی نفاذ کو ممکن بنا  سکے گا۔

    ڈاکٹر جگن ناتھ ہمارے محسن ہیں۔انکے درد کا ہمیں احساس ہونا چاہیے۔ہر شہر اور پنچائتوں میں اردو دوست نوجوانوں کا دستہ تیار ط کیا جانا چاہیے جوگھوم گھوم کر اہنی دکانوں کا سائن بورڈ اور گھروں پر نیم پلیٹ اردو میں لکھوائیں۔ہر گھر میں جا کر دیکھیں کہ انکے بچے اردو میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ایک اردو وزنامہ خرید رہے ہیں۔اسکولوں میں اردو کی تعلیم صحیح ڈھنگ سے ہو رہی ہے،اردو کے اساتذہ اردو  میں تعلیم دے رہے ہیں۔شہر میں جتنے علامتی تختیاں لگائے ہیں اسمیں اردو ہر حال میں لکھوائیں۔اردو داں نوجوانوں کی صرف بیداری نہیں بلکہ عملی بیداری کی ضرورت ہے۔انہیں متحرک ہونا ہوگا۔اپنی اجتمائی کاوشوں کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔تبھی ہم ڈاکٹر مشرا ی فکر کا مثبت جواب دے سکیں گے اور اپنے محسن کو اپنی عملی بیداری کا ثبوت دیکر اپنی مادری زبان کے تئیں اپنے فرائض  کی ادائگی کر سکیں گے۔

    (رابطہ(9431421821

 

******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 1093