donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rasheed Akhter Nadvi
Title :
   Rekhta Ki Tashkeel Aur Nashonuma Me Baba Farid Ka Kirdar

ریختہ کی تشکیل اور نشونما میں بابا فرید کا کردار


 رشید اختر ندوی

 
 
حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے بارے میں مولوی عبدالحق مرحوم بابائے اردو اور حافظ محمود شیرانی نے یہ دعویٰ بڑے استدلالِ قوی کے ساتھ کیا ہے کہ وہ اپنے وقت کے بڑے شاعر تھے۔ ان کی شاعری کی جو مثالیں پیش کی گئی ہیں گو اس کی زبان اس بولی سے مختلف ہے جو ملتان میں ڈھلی اور لاہور میں پہنچ کر ترقی کی منازل طے کر رہی تھی اور جو بابافرید گنج شکرؒ کے اپنے خاندان اور اہل و عیال کی زبان تھی۔ تاہم حضرت بابا فریدؒ کی زبان میں ملتانی کے اثرات موجود ہیں۔بلاشبہ ان کی زبان دہلی میں بولی جانے والی کرت یا ریختہ سے بظاہر کافی مشابہ ہے اس لیے کہ حضرت بابا فریدؒ نے حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد اور مرید کی حیثیت سے دہلی میں کافی دنوں تک قیام فرمایا تھا اور اس قیام سے ان کی زبان اور لہجہ کافی متاثرہوا تھا۔ اس کے باوجود لفظی ترکیبیں جو ان کے ذہن کی تختی پر انیس برس کی عمر تک نقش ہوتی رہی تھیں، ان کی شاعری میں موجود ہیں اور ان سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ حضرت بابا ملتان سے نکلتے وقت جو مادری زبان ہمراہ لائے تھے، دہلی نے اس پر کیا اثرات مرتب کیے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملتان سے لاہور کے راستہ دہلی پہنچ کر ملتان اور لاہور کی ریختہ میں کیا کانٹ چھانٹ ہوئی اور ملتان و لاہور کی ریختہ نے اس لسانی سفر میں دہلی پہنچ کر کیا شکل اختیار کر لی تھی۔یہ بد نصیبی ہے کہ حضرت بابا فریدؒ کی شاعری کے بہت کم نمونے دستیاب ہوئے ہیں۔ تاہم بعض مستند بیاضوں میں ان کے جو اشعار درج ہیں، وہ ان کے اندر بیان کی اچھی خاصی عکاسی کرتے ہیں۔ مثلاً ایک بیان میں حضرت بابا فریدؒ سے یہ نظم منسوب کی گئی ہے۔تن دھونے سے دل جو ہوتا پوکپیش رو اصفیا کے ہوتے غوثریش سبلت سے گر بڑے ہوتےجو کڑواں سے نہ کوئی بڑے ہوتےخاک لانے سے گر خدا پائیںگانے بیلاں بھی واصلاں ہو جائیںگوش گری میں گر خدا ملتاگوش چویاں کوئی نہ واصل ہوتاعشق کا رموز گو نیارا ہےجز مدد پیر کے نہ چارا ہےوقتِ سحر وقتِ مناجات ہےخیز درآں وقت کہ برکات ہےنفس مبادا کہ بگوید تیراخسپ چے خیزی کہ ابھی رات ہےباتن تنہا چہ روی زیرِ زمیننیک عمل کن کہ رہی رات ہےپند شکر گنج کہ بدل جان سنوضائع مکن عمر کہ ہیۂیات ہےحضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے سبب زبانِ ریختہ کا دائرہ بھی بہت وسیع ہوا اور اس میں نکھاربھی پیدا ہوا۔حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے یہ اشعار جو اوپر نقل ہوئے ہیں، اس دور کی دہلی زبان سے ان شعرا کی نسبت زیادہ قریب ہیں جو دکن اور گجرات میں رہ رہے تھے۔ حضرت بابا کے اشعار کی نسبت دکن اور گجرات کے مذکوہ بالا شعراء کے کلام پر پنجابی اساتذہ کی زیادہ گہری چھاپ ہے۔حالانکہ وہ دکن اور گجراتی تھے اور حضرت بابا فرید گنج ملتانی تھے اور ان کی اصل زبان وہی تھی جو ان کی صاحبزادی جناب عائشہ دکن کے قیام کے زمانہ میں بولتی سنی گئیں۔ہم نے ان کا خطاب بہ برہان الدین پیچھے نقل کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا تھااے برہان الدین ساڈی دیہ دیکہ کیا ہنسدان ایںجناب عائشہ اگر دکن پہنچ کر بھی یہی زبان بولتی سنی گئیں تو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت بابافرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے گھر میں محمد تغلق کے عہد تک اس ملتانی کا دور دورہ تھا اور حضرت بابا اس وقت دہلی چھوڑ کر اجودھن میں رہائش پذیر تھے اور ان کی صاحبزادی نے ان کے دوسرے بیٹوں کی طرح اجودہن ہی میں نشوونما پائی تھی اور ان سب کی زبان ایک جیسی تھی یعنی ملتانی اور یہ لازمی بات تھی کہ جس گھر کے سارے لوگ ملتانی بولتے تھے تو بابا حضرت بھی یہی زبان بولتے ہوں گے۔حالانکہ ان کے اشعار کی زبان جناب عائشہؒ کی زبان سے کافی مختلف ہے ، خاصی ترقی یافتہ ہے۔ اگر اشعار کی زبان بعید العہد ہوتی، تو پھر یہ گمان ہو سکتا تھا کہ حضرت باباخود تو اپنے اشعار والی زبان بولتے تھے مگر اہل و عیال کی زبان ملتانی تھی۔ مگر اشعار انھوں نے اس وقت کہے تھے جب وہ دہلی میں زیرِ تعلیم وزیر تربیت بہ درگاہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ تھے اور ان کی وہ اولاد جو گروہ اور انبوہ کی شکل میں دکن گئی تھی، ساری کی ساری اجودہن میں پیدا ہوئی تھی اور وہیں جوانی میں قدم رکھے تھے۔یوں بھی اجودہن میں ان دنوں میں بھی جو زبان بولی جاتی ہے وہ اس ملتانی کی نسل سے ہے جو جناب بابافرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا خاندان بولا کرتا تھا۔اس لیے درایت اور روایت دونوں کا تقاضا ہے کہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی زبان کو وہی زبان تسلیم کیا جائے جو جناب عائشہ دکن میں بولتی پائی گئیں۔بلاشبہ حضرت بابا فریدؒ کی خط وکتابت کی زبان لازماً فارسی تھی، جیسے کہ ان کے ان خطوط سے ظاہر ہوتاہے جو انھوں نے اپنے خالہ زاد بھائی حضرت بہاء الدین زکریا کے نام لکھے تھے اور یہ اس وقت کے شرفاء کا عام دستور تھا، ان کی عموماً خط کتابت فارسی میں ہوا کرتی تھی اور اکثر لوگ تو شعر بھی فارسی ہی میں کہتے تھے۔حضرت بابا فرید اور خسرو دہلوی کی مثالیں الگ ہیں اور اگر دہلی یا لاہور۔ ملتان کے کچھ اور بزرگوں نے ان دونوں زبانوں میں شعر کہے ہوں تو وہ ہم تک نہیں پہنچ سکے۔یوں یہ بات مسلمہ ہے کہ حضرت بابا کی شعر کی زبان قریب قریب ویسی ہی ہے جیسی کہ حضرت امیر خسرو کی، یہ الگ کہانی ہے کہ شاعر خسرو مکمل اور ہمہ وصف شاعر تھے اور ان کی شاعری میں شعر کی ہر رعنائی اور ہر شوخی تھی اور حضرت بابا ہمہ وقت درویش اور خدارسیدہ بزرگ تھے۔ تصوف اور زہدان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور شعر صرف ایک عارضی لگن تھی اور وہ بھی جوانی کی لگن؛ جیسے جیسے عمر کا کارواں آگے بڑھتا رہا، تصوف اور زہد ان کے دل و دماغ پر زیادہ اثرات مرتب کرتے رہے۔البتہ اس دور میں ان کی اولاد جوان ہوتی رہی اور وہی زبان بولتی رہی جو ان کی ماں بولتی تھیں یا ماحول بولتا تھا۔ اور یہی زبان ہمراہ لے کر یہ اولاد دکن تشریف لے گئی اور حضرت بابا فرید عوام الناس کے ذہن بدلنے کے لیے اجودھن میں مقیم رہ گئے۔اور اس دوران انھوں نے عوام سے رابطہ کے لیے تین زبانیں استعمال فرمائیں۔۱۔ دہلی اور سرہند کی زبان جو ان کے شعر کی زبان تھی، یہ زبان وہ ان عوام سے بولتے جو ان کی شہرت سن کر تزکیہ قلوب کے لیے سر ہند اور دہلی کے ماحول سے ان کے پاس آئے تھے۔۲۔ قدیم ملتانی زبان جو اجودھن کے علاقہ سے ملتی جلتی زبان تھی۔ وہ ان سب لوگوں سے بولتے جو ملتان اور بہاولپور حتیٰ کہ سندھ اور باقی اضلاع سے ان کے حضور باریاب ہوئے۔وہ خوشبو کا مرکز تھے اور یہ خوشبو دور دور تک پھیل گئی۔ ہزاروں عقیدت مند ذہنوں کی اصلاح کے لیے ان کے دربار میں حاضری دیتے۔حضور باباؒ ان کے ذہن بھی بدلتے اور ان کی زبان پر بھی اثر انداز ہوتے اور یہ زبان پر اثر انگیزی تھی کہ اس علاقہ کی زبان ملتانی زبان سے دور ہٹنے لگی۔ہمارے نزدیک حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے جہاں لاکھوں ذہنوں کو سنوارا، وہاں زبان کو بھی تبدیل کیااور زبان ریختہ یا ہندی ان کی ہمیشہ شکر گزار رہے گی۔حضرت بابا فریدؒ کی اولاد نے بھی زبانِ ریختہ کو بڑی وسعتیں بخشیںحضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی حیثیت محض ہندی کے ایک عظیم المرتبت ملتانی شاعر ہی کی نہیں ہے وہ اس اولاد کے باپ اور ان مریدوں کے پیرومرشد تھے، جن کے سبب ہندی زبان کے فروغ میں بہت مدد ملی تھی۔حضرت بابا فرید ؒ کے چھ بیٹے تھے اور تین بیٹیاں، پہلے بیٹے شیخ نصیرالدین تو اجودھن یا پاک پتن ہی میں قیام فرما رہے لیکن ان کے بیٹے حضرت بایزید اور ان کے صاحبزادے شیخ کمال الدین کے سبب گجرات اور مالوہ میں جہاں تصوف کی داغ بیل پڑی وہاں لاہوری، ملتانی، ہندی، دلی، دکنی کے سانچے میں ڈھلی تھی۔حضرت بابا کے دوسرے بیٹے شیخ شہاب الدین کی اولاد کافی ہوئی اور اس اولاد نے جہاں تصوف کو آگے بڑھایا وہاں زبان کو بھی خوب پھیلایا تھا۔ مثلاً شیخ حسام الدین ، شیخ عبدالحمید اور شیخ مسعود تو دکن میں کافی دن رہے تھے۔ ۱؂شیخ بدرالدین سلمان حضرت بابا کے تیسرے بیٹے تھے، ان کے پوتے شیخ معزالدین محمد بن تغلق کے عہد میں گجرات پہنچے تھے اور موت تک وہیں رہے اور زبان کی نشوونما میں بھی خوب حصہ لیا اور تصوف بھی خوب پھیلایا۔ ان کے دوسرے بھائی شیخ علم الدین ، شیخ الاسلام کے منصب کی حیثیت سے دکن تشریف لے گئے اور دو سال تک وہیں رہے ان کی بیوی بچے اور اعزاء اور خدام بھی ان کے ساتھ دکن گئے تھے ۲؂ ۔ شیخ معزالدین کے صاحبزادے افضل الدین نے باپ کے ساتھ دینِ اسلام اور زبان کی اشاعت و فروغ میں برابر کی دلچسپی لی تھی اور باپ کے بعد دکن میں یہ شمع روشن رکھی۔ شیخ علم الدین کے صاحبزادے مظہرالدین باپ کے بعد شیخ الاسلام بنے ۳؂ ۔حضرت بابا کے ایک بیٹے خواجہ نظام الدین بلبن کی فوج میں ملازم ہوئے اور پھر محمد تغلق کے عہد میں ترقی پائی، وہ بھی دکن اور گجرات میں کئی سال تک رہے تھے ۴؂ ۔ان کے بیٹوں میں سے خواجہ ابراہیم نے بھی دکن اور گجرات میں زبان ریختہ کی خدمت کی۔ شیخ یعقوب نے جو سب سے چھوٹے تھے، امروہہ میں ملتانی ہندی کی جوت جگائی تھی کیونکہ وہ امروہہ میں بس گئے تھے اور وہیں وفات پائی تھی۔ ان کے دو صاحبزادے تھے خواجہ معزالدین اور خواجہ قاضی، حضرت خواجہ معزالدین دکن میں مقیم رہے اور وہیں وفات پائی ۵؂۔ذرا غور فرمائیے گا دکن کو اردو کا گہوارہ کہنے والے لوگ کس قدر نا احسان شنا س ہیں جو پنجاب کا نام سنتے ہی کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ حالانکہ صرف حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی اولاد میں سے کتنے بزرگ وہ ہیں جنھوں نے دکن اور گجرات میں تصوف کی شمع کے ساتھ ساتھ زبان کا چراغ بھی روشن کیا تھا اور ظاہر ہے اجودھن کے یہ لوگ دکن پہنچ کر اپنی زبان یہاں نہیں چھوڑ گئے تھے، ساتھ لے گئے تھے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ یہی وہ تھے جنھوں نے دکن میں ریختہ کو صحیح فروغ دیا تھا۔ ورنہ محمد تغلق تو دو ڈھائی سال بھی وہاں گزار نہ سکا تھا۔ یہ تھے وہ لوگ جنھوں نے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگیاں دکن ہی کی نذر کر دی تھیں۔حتیٰ کہ بابا فرید کی صاحبزادیاں بھی ملتانی بولتیں، دکن جا پہنچی تھیں، مولوی عبدالحق مرحوم نے اپنے رسالہ ’’اردو کی نشوونما‘‘ میں اس امر کی شہادت خود مہیا کی ہے۔ ’’گلزار ابرار‘‘ اور’’ جواہر فریدی‘‘ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت بابا کی بیٹی بی بی مستورہ کے بیٹے خواجہ عزیز صوفی اور دوسری بیٹی بی بی فاطمہ کے صاحبزادے خواجہ موسیٰ بھی اس کارواں میں شامل تھے۔۱۔ سیرالاولیا، میر خورد، ص ۸۰، اخبار الاخیار، عبدالحق محدث دہلوی، ص ۵۲۲۔ سیرالاولیاء میر خورد، ص ۱۸۶۳۔ سیرالاولیاء میر خورد ، ص ۱۹۷۴۔ سیرالاولیاء میرخورد ، ص ۱۹۲۵۔ گلزار ابرار، محمدغوثی ، ص ۵۲


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 799