donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Mit Chuka Taqdeese Alfazo Mani Ka Shaoor


مِٹ چُکا تقدیسِ الفاظ  و معانی کا شعور

 

(حسنین ساحرHassnain Sahir -)


    جب معاشرہ اقتصادی اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہو جائے، دہشت گردی وبدامنی ناسُور اور بے روزگاری مرضِ لا علاج کی صورت اختیار کر جائیں۔ جب زندگیاں اور عصمتیںعدم تحفظ کا شکار ہو جائیں،جب طاقت ہی قانون کا درجہ اختیار کر جائے۔ جب سماج جبر کی زہریلی ہوائوں، محرومیوں اور ناآسودگیوں کی تصویر بن جائے۔ جب انسانیت منافقتوں، نا انصافیوں، وحشتوں، بے یقینیوںاور اذیّتوں میں گھِر جائے ۔جب صوت پر تصویر، سیرت پر صورت اور اقدار پر مقدار کو فوقیت حاصل ہو جائے۔جب شعری اوصاف و محاسن معائب میں بدل جائیں تو کوئی بھی ذی شعور انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔شاعر تو ہوتا ہی حساس ہے اسی لیے  محمد ثقلین ضیغمؔ کے احساس کی دنیا نے بھی انہیں اپنے ارد گرد سے بیگانہ نہیں رہنے دیا۔ثقلین ضیغمؔ کاحال ہی میںمنظرِعام پر آنے والا اوّلین شعری مجموعہ ـ"شبِ سُرخاب" نہ صرف رنگارنگ خیالات و جذبات کا مرقع ہے بلکہ اِس عہدِنا معتبر کی کم مائیگی اور شکست و ریخت کا عکاس بھی ہے۔ثقلین ضیغمؔ کریہہ المنظر معاشرے سے بے زار ہو کر فرار تلاش نہیں کرتے بلکہ اس میں رہتے ہوئے اس کی اصلاح کے خواہاں ہیں:

امّتِ مرحوم کے فرزند ٹھہرے بے بصر
علم و حکمت کے سبھی در ان پہ وا کر دیجیے
مِٹ چکا تقدیسِ الفاظ و معانی کا شعور
میری دنیا کو خدایا کربلا کر دیجیے

۔۔۔۔۔۔۔۔

کمندیں ستاروں پہ اب کون ڈالے
کہ بے بال و پر ہے عقابوں کی دنیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں شہرِ تمنا کی فصیلیںبھی گرا دو
اب ذات کے پُر ہول سے اس خول سے نکلو
جو صرف شکایات کی تعلیم نوازے
بے فیض سے ایسے کسی ماحول سے نکلو

    ثقلین ضیغمؔ کی آنکھ بھی اُس روزن سے جھانکتی ہے جو معاشرے کی حقیقی تصویر دکھاتا ہے۔ انہوں نے ہجروفراق، وصل وقربت اور الطاف و التفات کی منظر کشی کے علاوہ معاشرے کے ان رویّوں کو بھی قابلِ نشتر زنی سمجھا ہے جنکی وجہ سے خلوص، سچائی اور محبت معاشرے سے عنقا ہوتی جارہی ہے۔ ثقلین ضیغمؔ کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع دکھائی دیتا ہے۔وہ زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ قلمکار کی تحریر اُس کا  پرتو اور پہچان ہوتی ہے۔ایک سچا قلمکار وہی لکھتا ہے جو اُس کا دل کہتا ہے۔ شاعر ہمیشہ دوسروں کے دُکھوں کو محسوس کرتا ہے اور قلم سے اس کا اظہار کرتا ہے۔دیدۂِ بینا رکھنے والے کسی شاعر کا ذہن اپنے دور کی تلخ اور بے رحم حقیقتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ثقلین ضیغم نہ صرف ملی و سماجی ماحول کے نمایاں مسائل سے متاثر ہیںبلکہ ڈوبتی ہوئی اقدار کا نوحہ بھی انکی شاعری کا موضوع بن جاتا ہے:

کس نے چھینی ہیں سَروں سے وہ ردائیں سوچنا
کون ہے جس نے جلائی ہیں قبائیں سوچنا
کتنے ہاتھوں کے مقدر میں حنا لکھی نہیں
کتنے معصوموں کی قسمت ہے سزائیں سوچنا
آپ کے نزدیک وہ بھی معتبر ٹھہریں گے کیا
جو کسی معصوم کا یاں خوں بہائیں سوچنا

۔۔۔۔

لہو لہو ہے نینوا ابو غریب جیل کی
سنی ہے جب سے داستاں دل و جگر فگار ہے

 

    مشہور امریکی مؤرخ DORSEYمعاشرتی بگاڑ کی وجہ کچھ یوں بیان کرتا ہے:
    ـ"اس معاشرتی تباہی کا سبب نہ تو بڑے مجرم ہیں جن سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں اور نہ ہمارا افلاس جس سے ہم  فارم         ہیں۔بلکہ اس کا اصل باعث وہ معاشرتی نظام ہے جو منافقت اور فریب کی بنیادوں پر قائم ہے اور اسکے ساتھ یہ قانون کہ     جسکی لاٹھی اسکی بھینس"
 
     ثقلین ضیغمؔ نے بھی اس عہد بے مایہ میں کذب و نفاق، مکرو افتراق، خود غرضی، مادہ پرستی، اور ہوسِ اقتدار کے باعث جنم لینے والی طبقاتی تفریق اور معاشرتی ناہمواریوں کی نشاندہی بہت خوبصورتی سے کی ہے:

 

وفا قید ہے مفلسی کے بھنور میں
شرافت سے عاری نوابوں کی دنیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

رُلایا ہے کسی کو دربدر کی ٹھوکریں دے کر
کسی کو شان و شوکت دے کے اونچا نام سونپا ہے
عطا مالک نے ضیغمؔ اس طرح سے کردیے منصب
کسی کو خاص بخشا ہے کسی کو عام سونپا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی تاریک گلیوں کے
وہ بوسیدہ مکانوں کی
ٹپکتی چھت کے نیچے زندگی کو تم نے دیکھا ہے؟
کبھی کُوڑے کے ڈھیروں پر
بسا اوقات اپنا رزق چنتے
 پھول چہرے تم نے دیکھے ہیں؟
کبھی ہاتھوں کو پیلا رنگ دینے کی تمنا میں
سیہ بالوں کی چوٹی پر
چمکتی برف دیکھی ہے؟

    ثقلین ضیغم جھوٹی روایات کی بجائے مثبت قدروں سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ انکی شاعری سے انکے احساسات و جذبات کی لطافتیں، ان کے متخیلہ کا انداز، انکی فکر کی گہرائیوںاور وسعتوں میں یکجا ہوکر آئینے کی طرح کُلیتًہ نظر آتی ہیں۔ بھارہ کہو اسلام آباد سے شاعری کے افق پر ابھرنے والا یہ ستارہ جس صورتِ کمال میں میں ڈھل کر سامنے آیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ثقلین ضیغمؔ اسلام آباد شہر کا ادبی حوالہ بننے جا رہے ہیں، تو بے جا نہ ہو گا۔

حسنین ساحر
0333-5443633

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 681