donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad Ka Tareekhi Wajdan


ڈاکٹر احسان عالم


رحم خاں دربھنگہ

 


مولانا ابوالکلام آزاد کا تاریخی وجدان

 

    کل کے واقعات آج تاریخ ہیں اور آج کے واقعات کل تاریخ بن جائیں گے ۔ ماضی کے واقعات ہی تاریخ بن جاتے ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر عبور رکھتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ ماضی کے واقعات اور حادثات کے حفاظ ہوا کرتے ہیں ایسے ہی افرادمورخ کہلاتے ہیں ۔ کچھ افراد ایسے ہوتے جو خود تاریخ بنایا کرتے ہیں ۔ ان کے کارنامے ان کے چھوڑے ہوئے عظمتوں کے بلند نقوش بعد کو تاریخی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ۔ مولانا ابولکلام آزاد کا تعلق دوسری قسم سے ہے ، ان کی شہرت بحیثیت مورخ نہیں ہے ۔ تاہم اس تاریخ ساز شخصیت میں ایک مورخ کی جھلک ملتی ہے۔ آزاد کی تحریروں سے مورخ ابوالکلام آزاد کو بہ آسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔

    ایک مورخ کا ہاتھ وقت کے نبض پر ہوا کرتا ہے ،وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر ہر گزرے ہوئے لمحے کو دریافت کرتا ہے ، اسی کے سائے میں اس کاتاریخی شعور پرورش پاتا ہے ۔ وہی شخص مورخ بن سکتا ہے جس کے اندر ہر لمحے کا احساس اور ہر آنے والے سکینڈ کا وجدان پایا جاتا ہواور وہ اس گزرے ہوئے لمحے کے احتساب کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ وجدان مولانا میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ ان کے دوست جواہر لال نہرو نے قلعہ احمد نگر میں اسیری کی زندگی کے دوران مولانا کی پابندی اوقات کا اپنی ڈائری میں متعدد جگہ ذکر کیا ہے۔

    لمحوں اور سیکنڈوں کے ناپنے کا یہ انداز سکنڈوں کا حساب و کتاب ان کے تاریخی شعور کو اجاگر کرتاہے ۔ ایک مورخ کے لئے لازمی ہے کہ بیتے ہوئے ہر سکینڈ کو اپنے نہاں خانوں میں محفوظ رکھے اور وہ بھی اس طرح کہ سکنڈ کا ہر عمل اس کے ذہن کے اسکرین پر زندہ تصویروں کی طرح چلتی پھرتی نظر آتی ہوں۔ پھربھی یہ ممکن ہے کہ وہ ان واقعات سے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرے۔ اس حیثیت سے آزاد کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت یا دوسرے لفظوں میں تاریخ سے متعلق ان کے نظریات نے بڑی گہرائی اور وقعت تھی۔ غبار خاطر میں تحریر کرتے ہیں:

    ’’عرب کے فلسفی ابوالعلاء معری نے زمانے کا پورا پھیلائو تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا تھا ، کل جو گزر چکا ، آج جو گزر رہا ہے ، کل جو آنے والا ہے --لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم حال کہتے ہیں ، وہ فی الحقیقت ہے کہاں؟ یہاں وقت کا جو احساس ہی ہمیں میسر ہے وہ یا تو ماضی کی نوعیت رکھتا ہے یا مستقبل کی اور انہیں دونوں زمانوں کا اضافی تسلسل ہے جسے ہم حال کے نام سے پکارتے ہیں ۔ ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں ،لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا ، ادھر اس نے اپنی نوعیت بدل دی ۔ اب یا تو ہمارے سامنے ماضی ہے جو گزر چکا یا مستقبل ہے جو ابھی آیا ہی نہیں۔لیکن خود ’’حال ‘‘کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ جس وقت کا ہم نے پیچھا کرنا چاہا تھا وہ ’’حال‘‘ تھا اور ہماری پکڑ میں آیا ہے وہ ’’ماضی‘‘ ہے۔

نکل چکا ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں سے

 (غبار خاطر، ابوالکلام آزاد، ص:۲۴۸، مرتب: مالک رام ، ساہتیہ اکیڈمی)

    مولانا آزاد کے تاریخ کا اس سے گہرا مشاہدہ کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے حال کو نزدیک سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاہے:

’’اگر حقیقت حال کو اور زیادہ نزدیک ہوکر دیکھئے و واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں۔ صبح آنکھیں کھلیں ، دوپہر اُمید و بیم میں گزری ، رات آئی تو پھر آنکھیں بند تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی ایک صبح شام کے بسر کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے ، کتنے صحرائوں کو طے کرنا پڑتا ہے، کتنے سمندروں کو لانگنا پڑتا ہے، کتنی چوٹیوں پر سے کودنا پڑتا ہے، پھر آتش و پنبہ کا افسانہ ہے ، برق و خرمن کی کہانی ہے۔‘‘

 (غبار خاطر، مرتب مالک رام، ایڈیشن ۲۰۰۸ء ، صفحہ:۲۴۹)

    مولانا آزاد کے تاریخی شعور کی بلندی کا اس حوالے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے جو مولانا نے ۲۴مارچ ۱۹۵۱ء کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ،یہ جلسہ یونیسکو (UNESCO)کی طرف سے دہلی میں منعقد ہوا تھا ۔ مولانا نے اپنی تقریر میں تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

    ’’تاریخ کی غلط تعلیم نے انسان کو تقسیم کردیا ہے ۔ ہماری موجودہ تاریخی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ انسان مختلف نسلوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پھر ان اقوام کی داستان میں باہمی تصادم پر زور ہوتا ہے اور مختلف گروہوں میں منافقت اور نفرت کو پیش کیا جاتا ہے ، ناگزیر ہے کہ اس طرح جو تاریخ پڑھائی جائے گی اس سے ذہنی تنگی اور تصادم پیدا ہوگا۔ مطمح نظر محدود ہوجائے گا اور بچے کے ذہن میں علاحدگی کا احساس پرورش پانے لگے گا۔

( ایوان اردو ، دسمبر ۱۹۸۸ء مولانا آزاد نمبر، ص:۱۰۵)


    مولانا ابوالکلا م آزاد دکا تعلق جس دور سے ہے وہ دور بجائے خود ایک تاریخی دور ہے ۔پوری دنیا میں اس زمانے میں سیاسی اتھل پتھل اور سماجی شکست و ریخت کی فضا تیار تھی ، لازمی طور پر مولانا بھی ہر انسان کی طرح اس سے متاثر ہوئے ۔ اور اس طرح انہیں ایک ایسی تحریک میں شریک ہونے کا موقع ملا جو تاریخ سازی کے شاہراہ پر دوڑ رہی تھی ۔ ۱۹۴۰ء میں مولانا نے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر یہ بیان دیا تھا کہ :

    ’’تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کی ایوانوں میں ہوئی ہیں ۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کی طرح کھڑے کئے گئے ۔ ہم اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے سچا انسان تھا ۔ ہم کو اس میں فلارنس کے فداکار حقیقت گیلیلیوکا نام بھی ملتا ہے ‘‘۔

 ( قول فیصل، ابوالکلام آزاد، ص:۳۴)

    مولانا کو احساس تھا کہ وہ جس دور سے گزر رہے ہیں وہ مستقبل کی تاریخ ہے ، مستقبل کا مورخ ان واقعات و حادثات کا ذکئے بغیر اپنے قلم کا سفر آگے نہیں بڑھا سکتا ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ کل کو شعور کی آنکھ رکھنے والے انہیں واقعات و حادثات سے تاریخ کا پاٹھ پڑھیں گے اور مستقبل کی تعمیر کریں گے۔ آزاد کے نزدیک ماضی کے واقعات آج کی تاریخ ہیں اور انہیں اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ وہ مستقبل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ورنہ وہ واقعات جن کے اثرات آنے والے کل پر مرتب نہیں ہوسکتے ہیں وہ کسی مورخ کے نوک قلم سے نہیں نکلتے۔ جب ہم تاریخ کے صفحات پر اپنی فکر کی نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں ایک بھی ایسا حوالہ نہیں نظر آتا جنہیں روزمرہ کے واقعات کہہ کر گزراجاسکے۔ شاید تاریخ کہاہی جاتا ہے ان واقعات کو جو مستقبل کے لئے شانہ عبرت بنیں۔ مولانا آزاد کا تاریخی شعور یا ان کا تاریخی نظریہ بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ یہ کوشش کی کہ کل کے واقعات عظیمت کو آج کے لوگوں کے لئے فسانہ عجائب نہیں بلکہ مشعل عمل بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں کو راہ عزیمت پر چلنے کی جب دعوت دی تو ان کی نگاہ انتخاب میں وہ تاریخی واقعات آئے جن کا تعلق پچھلی صدیوں کے علماء اور محدثین کی داستان عزیمت سے ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خطبہ لاہور میں انہی گزرے ہوئے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

    ’’آپ حضرت سعید بن المسیب کو دیکھتے ہیں ظالم حکام کے حکم سے ان کی پیٹھ پر دُرّے لگائے جاتے ہیں ، مگر ان کی زبان صدق بیان اور اعلان حق میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئی ۔ آپ مدینہ کی گلیوں میں حضرت مالک بن انس کو دیکھتے ہیں ان کی مشکیں اس زور سے کس دی گئی ہیں کہ دونوں بازو اکھڑ گئے ہیں اور اوپر سے پیہم تازیانے کی ضربیں پڑ رہی ہیں ۔آپ امام احمد بن حنبل کو دیکھئے کہ پیٹھ زخموں سے چور چور ہوگئی ہے تمام جسم خون سے رنگین ہوچکا ہے ، لیکن اعلان حق سے باز نہ آئے۔ ‘‘      

(خطبہ صدارت، ص:۴۰۔۴۱)

    اس خطبہ صدارت میں مولانا آزاد نے اسلام کی پوری تاریخ دعوت عزیمت الٹ کر رکھ دی، انہوں نے امام ابوحنیفہ کے مصائب کا ذکر کیا ، امام شافعی کی اولوالعزمی کی داستان سنائی ، ابن تیمیہ کے مجددانہ کارناموں کو اجاگر کیا اور مجدد الف ثانی کی کہانی سنائی ۔ ان تمام لوگوں کے مصائب اور پریشانیوں کا اس خوبصورتی سے ذکر کیا کہ لوگ بر انگیختہ ہو اٹھے۔ ان کے دلوں کی چنگاریاں بھڑک اٹھیں اور وہ نیتجہ سامنے تھا جو آزاد ان تاریخی حوالوں سے چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک تاریخ اس لئے ہے کہ اسے پڑھ کر ، سن کر اپنے ایمان و عمل کا رشتہ اللہ سے مضبوط کیا جائے ۔ دنیاکے ان واقعات سے عبرت کے تازیانے بنائے جائیں ، نہ اس لئے کہ قوموں کی شکست و ریخت کی داستان سے چٹخارے لئے جائیں ۔ لاشوں کی ڈھیر سے ملامت کے تیر چلائے جائیں۔ 

    مولانا کے نظریے کے مطابق تاریخ صرف واقعات کی کھتونی نہیں بلکہ اس میں فکر انسانی کے ارتقا کی داستان اور انسانی شعور کی ترقی ، تہذیب و تمدن کے نشو ونما کے نقوش تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ وہ اس تسلسل کو آپس میں باہم مربوط تاریخی کڑیاں سمجھتے تھے ، جس کی ہر کڑی کی جھنک انسانوں کے کسی نہ کسی نفسیات کا پتہ دیتی ہو، مولانا آزاد جب کسی رسم کا تجزیہ کرتے ہیں تو تاریخی تسلسل کی کریاں ان کے ذہن میں ابھرنے لگتی تھیں، غبار خاطر میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

    ’’انسان اپنی ساری باتوں میں حالات کی مخلوق اور گرد وپیش کے موثرات کا نتیجہ ہوتا ہے ، یہ موثرات اکثر صورتوں میں آشکارا ہوتے ہیں اور سطح پر سے دیکھ لئے جاتے ہیں ، بعض صورتوں میں مخفی ہوتے ہیں ور نہ  اتر کر انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔تاہم سراغ ہر حال میں مل جاتا ہے ۔نسل ، خاندان ، صحبت ، تعلیم و تربیت ان موثرات کے عنصری سرچشمے ہیں ۔‘‘(غبار خاطر، ایڈیشن ۲۰۰۸ئ،ص:۹۳)
    مولانا آزاد کے تاریخی وجدان ہی کا اثر تھا کہ ان کوقدیم تہذیبوں کے مطالعے سے خاصی دلچسپی تھی ۔ وہ ان کے امتیازی کارناموں پر غور کرتے ہیں ، ان کی ترقی وتنزل کے اسباب پر محققانہ نگاہ ڈالتے تھے اور پھر اس سے نتیجہ اخذ کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا ز مورخ پروفیسر ٹائین بی کی ملاقات جب مولانا سے ہوئی تب وہ خود بھی مولانا کے تہذیب عالم پر گہری نگاہ اور اس کے ارتقا ء و تنزل کے اسباب پر ان کے ناقدانہ تبصرہ سے بہت متاثر ہوا۔ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۵۱ء کومشرق و مغرب میں تصور انسان پرایک سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا نے انسان کے ارتقاء کی داستان چھ ہزار سال سے شروع کی اور حیر ت انگیز طور پر ان تمام واقعات کو سمیٹتے ہوئے عصر حاضر پر آپہنچے۔ کہا جاسکتا ہے یہ مولانا کے تاریخی شعور کا نقطۂ اعجاز ہے ۔ مولانا آزاد کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ بین الا اقومی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ کرتے تھے ۔ وہ ہندوستان کی تاریخ کا یونانی تہذیب سے موازنہ کرتے ہوئے اس کا مطالعہ پیش کرتے ہیں پھر بسا اوقات فیصلے بھی کرتے ہیں ، مولانا نے ہندوستان کی قدیم تہذیب کا جگہ جگہ قدیم یونانی تہذیب سے مقابلہ کیا ہے ۔

    مولانا آزاد کو ہندوستان کی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تاریخ سے بھی گہری دلچسپی تھی، نہروجی کے بقول انہوں نے احمد نگر میں دوران اسیری اس موضوع پر بہت زیادہ مطالعہ کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی سے بھی انہیں خاصی دلچسپی رہی ہے۔ لیکن تاریخی نظریے کی سلسلے میں انہوں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انڈین ہسٹوریکل رکارڈ کمیشن کی میٹینگ میں صاف طور پر کہا تھا کہ اس تاریخ کو لکھنے میں معروضیت کو رہبر بنانا چاہئے اور واقعات کی تحقیق میں تعصب کو دخل نہیں ہونا چاہئے ۔ کمیشن کی یہ میٹنگ ۲۵؍ جنوری ۱۹۵۵ء کو منعقد ہوئی تھی۔

( ایوان اردو ، مولانا آزاد نمبر، ص:۱۱۰،دسمبر ۱۹۸۸ئ)


    مولانا کی نگاہ نہ صرف تاریخ پر تھی بلکہ مورخین کے طریقہ تاریخ نویسی کے محاسن اور عیوب بھی ان کے نگاہ سے اوجھل نہیں تھے مولانا نے متعدد مورخین کی کتابوں پر بے لاگ تبصرے کیئے ہیں ، ان تبصروں کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے باب میں ان کا ذہن کس قدر تیز دوڑتا تھا اور ان کا شعور کتنا بیدار تھا ۔ ضیاء الدین برنی کے متعلق ان کا کہنا تھا ’’اس میں تدبیر بیان بہت ہے ‘‘۔ جوہر آفتابچی کے تذکرۃ الواقعات کے متعلق فرمایا جس طرح کی فارسی میں گفتگو ہوتی تھی اس کا بہترین نمونہ ہے جب کہ مشہور سیاح اور مورخ البیرونی کے سلسلے میں لکھتے ہیں :

    ’’البیرونی کی زندگی کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا بے لاگ علمی یعنی سائنٹفک دماغ ہے۔ اس کی یہ خصوصیت ہر جگہ اس کے ساتھ آتی ہے ۔ کوئی دینی عقیدہ ، کوئی قومی روایت ، کوئی تاریخی مسلمہ اس کی اس خصوصیت کو متاثر نہیں کرسکتا ۔ ا س کی عقلیت بے لچک، بے داغ اور ناممکن التسخیر ہے ۔‘‘

( البیرونی پر آزاد کا مقالہ، ص:۱۰۵۔۱۰۶،  بحوالہ : ایوان اردو ، مولانا آزاد نمبر، ص:۱۱۰،دسمبر ۱۹۸۸ئ)

    مولانا کا اپنا اسلوب ہے جو جذبات کے سمندر میں زلزلہ پید اکردیتا ہے ، غیرت و حمیت کی آگ دلوں میں بھڑکاتا ہے ، اور ایک عام آدمی بھی مردانہ وار جہاد و شہادت کی راہ میں اپنی عظمت کا پرچم لہرانے کے لئے میدان کارزار میں کود پڑتا ہے ۔ مولانا کے زمانے میں غزوئہ طرابلس ماضی کی کوئی داستان نہ تھی بلکہ حال کا واقعہ تھاجسے ان کے قلم نے ایسی زندگی بخشی کہ آنے والے دلوں کے لئے یہ واقعہ تاریخ کا خزانہ بن گئے ۔ مولانا آزادغزوے کے تانے بانے پہلی صدی ہجری اور عہد نبوی کے غزوات و سرایا سے جوڑتے ہوئے اسے تاریخی شواہد اس طرح عطا کرتے ہیں:

    ’’غزوئہ طرابلس کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ صدیوں کے بعد اس نے صدر اسلام کے غزوات و مجاہدات کے واقعات زندہ کردئے اور مدتوں بعد عرب بادیہ کو موقع ملا کہ ان کے اصلی جوہر نمایاں ہوں۔ بدر احد کے واقعات میں ہم پڑھتے تھے کہ ایسی عورتیں تھیں جو اپنے آٹھ آٹھ لڑکوں کو اللہ کی راہ میں زخمی کراکے پھر خود بھی زخمی ہوجاتی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول محبوب کی محبت و عشق  میں ایسی محو تھیں کہ تیروں پر تیر کھاتی تھیں، مگر اپنے جسم کو ان کے سامنے ڈھال کی طرح رکھتی تھیں ۔ ہم یہ پڑھتے تھے مگر خاک طرابلس نے تمام واقعات دہرا دیئے۔ ‘‘

(  الہلال ، ۱۳ نومبر ۱۹۱۶ئ، جلد اول دوم، ص:۳۹۴)

    مورخ آزاد کی انفرادیت یہی ہے کہ عام مورخین کی طرح صرف واقعات و حادثات کے ذکر اور اعداد و شمار کے اندراج پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ حادثات و واقعات کے تاریخی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ تاریخ کا ایک مقصد ہے ،وہ مقصد جلیل عبرت اور موعظت کا حصول ہے ۔مولانا آزاد کے یہاں تاریخی مطالعہ کا مقصودماضی کے واقعات سے سبق لے کر مستقبل کی تعمیر ہے۔جو انہوں تاریخی واقعات کا ذکر قرآنی دعوت سے اخذ کیا تھا۔مولانا آزا دکی ہر تحریر کی طرح تاریخی تحریروں یا بہ الفاظ دیگر ان کی تاریخ نویسی میں مقصد جہاد پوشیدہ نظر آتا ہے ۔ گو یا وہ اس لئے ان واقعات و حوادث اور تاریخ کے اس پہلو پر قلم اٹھاتے ہیں تاکہ موجودہ مسلمان بھی اس سے سبق حاصل کریں۔ چنانچہ الہلال میں اسی عظیم مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے غزوئہ طرابلس و بلقان کی بھرپور رپورٹنگ کی۔ کیونکہ مولانا آزاد جانتے تھے کہ آج کے واقعات کل کی تاریخ بن جائیں گے ۔ اور اس میں عبرت و موعظت کا سامان ہوگا۔

    مولانا ابوالکلام آزادنے اس جنگ پر گہری نظر رکھی  اور ایک ایک واقعہ کی رپورٹنگ کی ۔ مولانا نے جب ان خبروں کی اشاعت الہلال کے سینے میں محفوظ کر رہے تھے، تو کسی خبر نہ تھی کہ یہ خبریں آئندہ کے لئے تاریخی دستاویز بن جائیں گے۔ اس لئے ان خبروں یا دوسرے لفظوں میں تاریخی دستاویز کی ترتیب یا پیش کش میں کسی مورخ کے قلم سے نکلنے والی کسی تاریخ کی کتاب کا رنگ تلاش کرناغیر ضروری ہے ۔ 

    مولانا ابوالکلام آزاد نے جہاں بلاد اسلامیہ اور ملت اسلامیہ کی ایک ایک خبر غزوئہ بلقان اور طرابلس کے ایک ایک حادثہ اور واقعے کی تصویر کشی کی ہے ،اسی طرح انہوں نے شئون داخلیہ کے عنوان سے ملک میں پیدا ہونے والے حالات و حوادث اور انگریز جابر حکمرانوں کے مظالم کی داستان بھی تاریخ کے لئے محفوظ کردی ہے ۔ وہ ان واقعات اور مظالم و بربریت کے چشم دید گواہ تھے ،اس لئے ان کی شہادت تاریخ کے لئے سب سے مستند ذریعہ ہے ۔ چنانچہ الہلال نے کانپور کی مسجدکے انہدام اور قتل عام کی ایک ایک خبر پوری ایمانداری اور جرأت کے ساتھ شائع کی ہے ۔ اپنی عادت کے مطابق اس ہولناک واقعہ میں اپنی روشن مستقبل کے مبشرات کو پڑھتے ہوئے مولانا نے ملت اسلامیہ ہند کو یہ پیغام دیا :

    ’’شہدائے کانپور کی یاد ہمارے دلوں میں ہر وقت تاز ہ رہے گی ۔ ہم ان کی برسی منائیں گے ۔ ہم ان کا مرثیہ پڑھیں گے ۔ ہم ان کی مظلومی اور بے کسی کو ہر وقت یاد رکھیں گے، ہم ان کے جوش حمایت دینی اور مدافعت میں مل کر روئیں گے ، ہم آئندہ تین اگست کی صبح کو دس محرم کی دوپہر سمجھیں گے ‘‘۔

(الہلال ، ۱۳؍ اگست ۱۹۱۲ئ، ج:سوم، ص:۱۶۳)

    کانپور کے واقعہ کو جس طرح مولانا نے پیش کیا ہے ؛اس سے تاریخ کے سلسلے میں ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مولانا نے یہاں بھی عام شاہراہ سے ہٹ کر اپنی ایک نئی راہ بنائی ہے ۔ ان کے یہاں ماضی کا کوئی واقعہ اس لئے نہیں کے صرف اسے چٹخارے لے کر خوبصورت اسلوب و الفاظ میں بیان کردیا جائے یا اس اندازمیں سپرد قرطاس کیا جائے کہ قوس قزح کی تمام دلفریبیاں قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیں۔ وہ کسی تاریخی حیثیت کی حامل چیز کو افسانوی رخ دینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بہت سے اردو ادب کے شیدائیوں نے الہلال کے اس واقعہ درد  والم اور کرب و بلا میں آزادی کی افسانہ نویسی کا رنگ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور نہ معلوم اس سلسلے میں کیسی کیسی دقیقہ سنجیاں کی ہیں جس سے شاید خود ابوالکلام آزاد بھی واقف نہ تھے۔ مولانا نے ان تاریخی واقعات و حوادث کو الہلال کی امانت اس لئے نہ بنایا تھا کہ آئندہ ان کی شناخت بحیثیت افسانہ نویس ہو ،بلکہ مولانا نے ان تمام حوادث و واقعات اور ایام ماضی کی سرگزشتیں اس لئے تحریر کیں تھیں تاکہ ملت  اسلامیہ اور ہندوستان کے افراد اس سے سبق لے کر اپنے حال و مستقبل کی تعمیر کریں۔ مولانا مرد مومن تھے ،اس لئے ان کی ہر تحریر اور کام کے پس پردہ ایک عظیم مقصد ہوا کرتا تھا ، انہیں ملک و ملت کی فکر تھی۔اس لئے انہوں نے ان خون آشام واقعات کی سرخی سے مستقبل کا چراغ روشن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔     

(مطبوعہ ’’آج کل ‘‘ نئی دہلی ،دسمبر ۲۰۱۳ئ)

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1316