donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Urdu Zaban Ke Farogh Ke Liye Urdu Academy Jeddah Ka Ijlas

اردو زبان کے فروغ  کے لئے

اردو اکیڈمی جدہ کا پانچواں سہ ماہی اجلاس


وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ سے تمام  مدارس میں

اردو کو لازمی مضمون قرار دینے کے لئے قرارداد کی منظوری

 

قرارداد کی گیارہ معروف اور فعال تنظیموں کی جانب سے پُرزور تائید وحمایت

اہلیان جدہ میں اردو زبان کے فروغ کے لئے کوئز کے ذریعہ معلومات کا بیش بہا خزانہ  فراہم کرکے اردو اکیڈمی جدہ  کے ذمہ داران  نہایت  اہم  خدمت انجام دے رہے ہے۔  ان خیالات کا اظہار اجلاس کے مہمان خصوصی سینئر ایڈوکیٹ جناب غلام یزدانی نے اردو اکیڈمی جدہ کی جانب سے منعقدہ پانچویں سہ ماہی میں کیا جو حسب سابق نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ حیدرآباد سے تشریف لائے دو اور مہمان شعرا ء جناب ابولحسن قابل حیدرآبادی اور تاج مضطر نے بھی بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کی۔اجلاس میں شرکت کے لئے جوق در جوق تشریف لانے والوں کو ایک خوبصور ت قلم باب الداخلہ پر پیش کیا گیا جس پر اردو اکیڈمی جدہ درج تھا۔ قاری محمد عباس خان کی قراء ت کلام پاک کے بعد انڈین اسکول کے کمسن نعت خوان احمد رضا نے اپنی پرسوز آواز میں نعت پیش کرکے سماں باندھ دیا اور اس کے بعد عارف صدیقی نے اقبال اشہر کی مشہور نظم ’’اردو ہے میرا نام ، میں خسرو کی پہیلی‘‘ شاعر کی تمثیل کرتے ہوئے پیش کی اور زبردست داد تحسین حاصل کی۔

حیدرآباد سے تشریف لائے مہمانوں اور حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے صدر اردو اکیڈمی جدہ  سید جمال اللہ قادری نے کہا کہ اردو زبان کے تعلق سے ہماری اکیڈمی نے ہمیشہ مثبت سوچ اختیار کی اور جو اردو کے بارے میں منفی باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو مر رہی ہے اور اس کا مستقبل نہایت مایوس کن ہے ، ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے متعینہ اہداف کو بحسن و خوبی کامیابی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جہاں اردو مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی ہمت افزائی کے لئے انہیں اسکول بیاگس، تعلیمی اشیاء کی تقسیم کرتے ہیں وہیں بہترین نتائج کے حامل اردو مدارس کے ہیڈماسٹرس ، مضمون واری اساتذہ اور  اردو کے ریاستی ٹاپرز کو تمغوں اور نقد انعامات پیش کرتے ہیں۔ جمال قادری نے تالیوں کی گونج میں کہا کہ حیدرآبا د شہر کو ہم  ’’اردو کا شہر‘‘ بنانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ جدہ کے ماحول میں اردو کے فروغ کے لئے ہر تین ماہ میں ایک اجلاس بعنوان ’’آؤ اردو سیکھیں‘‘ منعقد کرکے ہم شہر جدہ کو بھی اردو کا شہر بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔شعر کے پیرہن میں اردو داں کچھ اس طرح ہوگا ۔ وہ کرے بات تو ہر بات سے خوشبو آئے ۔ ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے۔  اردو اکیڈمی جدہ اپنے اس عزم کو لئے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور یقین ہے کہ ایک دن آئے گا جب یوں کہا جائے گا۔ ’’کہیں پیار کہیں عطردان جیسا ہے۔ ہمارا شہر اردو زبان جیسا ہے‘‘۔ اردو زبان کی چاشنی اور اس کی مٹھاس سے محروم لوگوں کی بدقسمتی پر انہوں نے یہ شعر کہا ۔ تیرے لہجے سے لوبان کی خوشبو نہیں آتی۔ تو بدنصیب ہے ، تجھے اردو نہیں آتی۔

اردو اکیڈمی جدہ کے معزز رکن عبدالستار خان نے نہایت خوبصورتی سے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔ مہمان خصوصی غلام یزدانی کو جمال قادری نے خوبصور ت توصیفی تمغہ پیش کیا جس میں ان کی حیدرآباد میں اردو کے لئے دیرینہ خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ معتمد سلیم فاروقی اور چیف آرگنائزر شیخ ابراہیم نے اعزازی مہمان قابل حیدرآبادی اور تاج مضطر کی خدمت توصیفی تمغے پیش کئے ۔ ابوالحسن قابل حیدرآبادی نے ایک نعت اور اپنا ادبی کلام پیش کرکے داد حاصل کی ۔ ان کے دو شعرجو بہت پسند کئے گئے یوں تھے  ۔

ملت کے جواں سُن کر ہوجائیں عمل پیرا ۔ مسجد میں تیرا واعظ خطبہ ہو تو ایسا ہو، دوسرا شعر جس پر خوب داد ملی ۔ لے کر قرآن ہاتھوں میں دنیا سے یہ کہہ دو۔ دستورِ باوقار ہمارا یہی تو ہے
تاج مضطر نے بھی بہت شاندار کلام پیش کیا ۔ شدت غم سے گو آنکھوں میں نمی رہتی ہے ۔ باوجود اس کے میرے لب پہ ہنسی رہتی ہے ، ایک اور شعر یوں تھا۔ تاج مضطر کے یہاں حسن عمل کچھ بھی نہیں ۔ آخرت جس کی ہو تاباں  وہ ضیاء دے ہم کو۔

اس مرتبہ کے سہ ماہی اجلاس میں جدہ کی معروف وفعال تنظیموں کے ذمہ دار حضرات کو اردو کے بارے میں صرف تین منٹ کی تقریر کرنے کے لئے عنوانات کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا، جسے حاضرین نے بے حد پسند کیا ۔ جن تنظیموں کو مدعو کیا گیا تھا وہ یہ ہیں ۔ انڈیا فورم ، خاک طیبہ ٹرسٹ، بزم اتحاد،  سوشیو ریفارمس سوسائیٹی، انڈین انجینئرس فورم، نور ایجوکیشن سوسائیٹی، اظہار اردو ٹاک ماسٹرس کلب، دکن این آر آئز گروپ ، ٹوئن سیٹیز یوتھ ویلفیر سوسائیٹی، یونائٹیڈ تلنگانہ فورم۔  ہر مقرر نے اپنے دئے گئے وقت میں اردو کے فروغ پر زبردست تقریر کی۔  ڈاکٹر علیم خان فلکی نے ’’اردو تقریر کے فن و رموز‘‘ کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مقرر کو پہلے یہ طئے کرلینا چاہیئے کہ اسے کیا کہنا ہے۔ کامیاب تقریر کا دوسرا راز یہ ہے کہ وہ دئے گئے وقت سے کچھ سکنڈ پہلے ختم ہوجائے ۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ خواہ کتنے ہی بہترین مقرر کیوں نہ ہوں، موضوع پر پہلے کچھ پڑھ لیں ، اس کو نکات کی شکل میں لکھ لیںبلکہ ممکن ہو تو کسی کو ایک بار سنا دیں یا تبادلہ خیال کرلیں۔ بغیر مطالعہ کی تقریریں عام طور پر مایوس کن ہوتی ہیں۔

بزم اتحاد کے ترجمان یوسف الدین امجد نے  ’’مادری زبان کی خدمت کیسے کی جائے‘‘ پر اپنی تقریر میں کہا کہ صرف سال میں ایک بار مشاعرہ کر لینے سے یا کچھ اردو بولنے والوں کے ساتھ محفلیں منعقد کرلینے سے یا صرف اردو اخبار پڑھ لینے سے اردو کی خدمت کا حق ادا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے ہر وہ شخص جس کی مادری زبان اردو ہے ، اسے اپنے گھر میں اور ماحول میں خالص سشتہ اردو زبان کے الفاظ کا استعمال کرنا ہوگا اور  بچوں اور خواتین کو اردو الفاظ سے مانوس کروانا ہوگا تب کہیں جاکر اردو کی مٹھاس اپنا رس گھولے گی اور کہنے اور سننے والوں میں اس کی چاشنی کا احساس پیدا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ جدہ میں چند تنظیمیں اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہیں لیکن ان کی شخصی تحقیق کے مطابق اس وقت جدہ میں اردو اکیڈمی جدہ پہلے نمبر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس اکیڈمی کی کاشوں کو نہ صرف تحسین پیش کرتا ہوں بلکہ اس اکیڈمی کے تما م ذمہ داران کو ان کی خدمات پر سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان میں ہمارے اسلاف نے ہر موضوع پر لکھ کر بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے اور اس خزانے کو سنبھالنے کی ذمہ داری ہماری آنے والی نسل کے کندھوں پر ہے اور نئی نسل یہ ذمہ داری اسی وقت سنبھال پائے گی جب انہیں اردو کے معانی و الفاظ اور اس کے مفاہیم سے بخوبی ہم آہنگی ہو۔

انڈین قونصلیٹ کی معروف تنظیم انڈیا فورم کے صدر ، ٹرسٹی خاک طیبہ ٹرسٹ اور سماجی خدمت گذار اعجاز خان نے  ’’اردو اکیڈمی جدہ کو اپنی سرگرمیوں میں وسعت کے لئے اور کیا کرنا چاہئے ‘‘ کے عنوان پر کہا کہ غلام آصف صمدانی کی سرپرستی میں اکیڈمی کی جاری سرگرمیاں قابل صد ستائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے سہ ماہی اجلاس کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے  اس میں روز افزوں معلومات کا اضافہ ہی ہوتا جارہے اور میں بذات خود ان اجلاسوں سے کافی کچھ سیکھ پایااور ان میں پابندی کے ساتھ شرکت کرتا ہوں۔ انہوں نے ان پروگراموں کی غیرمعمولی  مقبولیت کے پیش نظر جدہ کی دیگر ہم خیال تنظیموں کے ساتھ ان اجلاسوں کو زیادہ وسیع پیمانے پر منعقد کرنے کا مشورہ دیا۔  یونائٹیڈ تلنگانہ فورم کے صدر عبدالجبار نے اپنے عنوان ’’ تلنگانہ کے مدارس میں اردو بحیثیت ایک لازمی زبان‘‘ پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اردو  صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب و ثقافت کا نام ہے ۔  اردو کو تمام مدارس میں لازمی زبان کے طور پر شامل کرنے سے ریاست تلنگانہ میں امن و امان کے قیام میں آپسی بھائی چارے کے فروغ میں کافی مدد ملے گی اور ریاست تلنگانہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ سارے عالم میں گنگا جمنی تہذیب کی ایک مثالی ریاست بن کر ابھرے گی۔  انہوں نے حکومت تلنگانہ سے مطالبہ کیا کہ وزیر اعلی اور دیگر وزراء کی تقریروں سے یقینا ان کے نیک ارادوں کا اظہار تو ہوتا ہے لیکن اسے عملی شکل دینا وقت کی ضرورت ہے۔  خاک طیبہ ٹرسٹ کے صدر احمد عبدالحکیم نے ’’اردو زبان کا استعمال بذریعہ کمپیوٹر‘‘ کے عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمپیوٹر ایک بے جان چیز ہے جو انسان کے اشاروں اور احکام کا تابع ہوتا ہے۔ اردو سے محبت رکھنے والے اگر اردو زبان کی خصوصیات اور اس زبان کے پر کشش الفاظ اور اس کی تہذیب و ثقافت کو کمپیوٹر کے ذریعہ پیش کر یں تو کمپیوٹر کی دنیا میں ایک انقلاب آسکتاہے۔  دکن این آر آئز گروپ کے معتمد عمومی عبدالرزاق نے ’’ اردو زبان کا ریاست تلنگانہ میں  فروغ کیسے ہوــ‘‘ کے عنوان پر کہا کہ اردو اکیڈمی جدہ جیسی تنظیمیں اپنی استطاعت کے مطابق اس زبان کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں ۔ اب ضرورت ہے کہ حکومت جو موافق اردو بیانات دے رہی ہے اس پر عمل آوری کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ اپنی تنظیم کی جانب سے اردو اکیڈمی جدہ کے ہر کام میں مدد کرنے کا یقین دلاتے ہوئے عبدالرزاق نے امید ظاہر کی کہ جدہ کی دیگر تنظیمیں بھی اس زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ٹوئن سیٹیز یوتھ ویلفیر کے بانی و صدر اور خاک طیبہ کے جنرل سکریٹری و ٹرسٹی سید خواجہ وقارالدین نے  ’’نئی نسل میں اردو  تہذیب کی منتقلی ‘‘ کے عنوان پر انتہائی جذباتی اور متاثر کن  تقریر کی۔ انہوں نے نئی نسل کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ اردو صرف الفاظ کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ یہ چمن ہے، دمن ہے، تہذیب ہے ،  بلکہ تعظیم و تکریم  کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے نئی نسل میں مضمون نویسی، شعرگوئی اور اردو کے محاوروں کے استعمال کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ  اردو زبان  میں بزرگوں ، والدین اور اساتذہ کو مخاطبت کے لئے ’’آپ ‘‘ کا لفظ ہے اور ہم عمر ساتھی کے لئے لفظ ’’تم‘‘ ہے اور انتہائی بے تکلف دوست کے لئے ـ’’تُو‘‘ ہے ۔ جب کہ انگریزی میں لفظ ’’یو‘‘ کے ذریعہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جاتا ہے ۔ انہوں نے حاضرین اور اہلیان اردو سے خواہش کی کہ وہ اپنی زبان کو حقارت سے دیکھنے کی روش ترک کریں اور نہایت ہی فخر کے ساتھ اس کا گھروں میں اور محفلوں میں استعمال کیا کریں۔محمد ظہیرالدین صدرنشین نور ایجوکیشن سوسائیٹی نے بعنوان ’’انگریزی میڈیم مدارس میں اردو کا فروغ‘‘ مخاطب کیا  اور کہا کہ موجودہ نسل کے گرتے ہوئے اخلاقیات کے پیش نظر یہ نہایت ضروری ہے کہ اردو کو ایک زبان کی حیثیت سے انگریزی مدارس میں شامل نصاب کیا جائے۔  انہوں نے انگریزی میڈیم مدارس کے ارباب سے کہاکہ اپنے مدرسوں میں طلبہ کی گرتی ہوئی اخلاقیات کو سدھارنے کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ اردو زبان کی تعلیم۔  اردو اظہار ٹوسٹ ماسٹر کلب سے وابستہ ٹی ایم خلیل احمد جو ڈویژنل گورنر بھی ہیں نے ’’نئی نسل میں اردو کا فروغ ‘‘ کے عنوان سے نہایت معلوماتی تجاویز پیش کئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی جس کی مادری زبان اردو ہے ، اس کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کی زبان کے اپنے بچوں میں فروغ کے لئے گھر پر اردو اخبارات، اردو کہانیاں اور دیگر آسان اردو کی کتابیں گھر میں رکھے اور وقتا فوقتا اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں پڑھائے اور سمجھائے۔ بچوں میں جب دلچسپی پیدا ہوجائے گی تو پھر مستقبل میں وہ خود اردو کی کہانیاں اور معلوماتی کتابیں ڈھونڈ کر پڑھنے لگیں گے۔  انڈین انجینئرس فورم کے صدر محمد سعیدالدین نے  ’’ جدہ کے مدارس میں اردو کا فروغ‘‘ کے عنوان پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جدہ کے مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ جو خواہ کسی بھی مضمون کے استاد ہوں ، ان کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو اردو زبان بحیثیت اختیار ی زبان کے طور پر لینے کی بابت سمجھائیںاور اس کے فوائد سے روشنا س کرائیں۔ انہوں نے اردو اکیڈمی جدہ کے لئے کلمات تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو میں کوئز اور تقریروں کے ذریعہ بین المدارس مقابلوںکیانعقاد سے یہ اکیڈمی  اردو کی بہت زبردست خدمت کر رہی ہے ۔  تقاریر کے بعد جمال قادری نے پروجیکٹر کے ذریعہ اردو اکیڈمی جدہ کی حالیہ سرگرمیوں کو  تصویروں کے ذریعہ پیش کیا۔ یکم مارچ ۲۰۱۵ ء کو گیارہوں سالانہ جلسہ میں اس سال ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی صاحب بطور مہمان خصوصی شریک رہے جب کہ  پروفیسر ایس اے شکور ، ڈائرکٹر اردو اکیڈمی اور ممتاز قائد خلیق الرحمن مہمانان اعزازی کے طور پر شریک تھے۔ جملہ( ۲۷) تمغے اور نقد انعامات ایس ایس سی (اردو)کے ریاستی ٹاپرز، بہترین ہیڈماسٹرس اور اساتذہ  کو پیش کئے گئے۔ اس کے علاوہ چار نابینا ایس ایس سی کے ٹاپرز کو بھی تمغے و نقد انعامات سے نوازا گیا۔ کریم نگر میں ٹیچرس ورکشاپ کا انعقاد اردو اکیڈمی جدہ کے معاون مسعود علی اکبر کی نگرانی میں منعقد ہوا جس میں (۱۵۰ )اساتذہ شریک ہوئے۔ امسال  اردو پرائمری اسکولوں کے (۴۶۵۰) بچوں میں اسکول بیاگس کی تقسیم عمل میں آئی اور  (۲۲۲۰)  ایس ایس سی کے طلبہ کو امتحانی کٹس مع کمپاس بکس و دیگر تعلیمی اشیاء دئے گئے ۔ ۱۹ ؍مارچ کو اردو مسکن میں ایک عظیم الشان جلسہ بتعاون کنفیڈریشن آف میناریٹی انسٹی ٹیوشنس منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر اطہر سلطانہ اسوسیٹ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی، ماہر ین تعلیم ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد، ڈاکٹر آنند راج ورما، اقبال احمد انجینئر کے علاوہ معروف قائد خلیق الرحمن نے اپنی تقاریر میں اردو کی اہمیت اور اس کی افادیت پر زور دیااور انگیزی میڈیم اسکولوں کے ذمہ داران سے اپیل کی کہ وہ اپنے مدارس میں اردو کو ضرور شامل کریں۔اس جلسے میں میں تقریبا (۱۰۰)  انگریزی میڈیم اسکولوں کے ارباب ذمہ دار ، پرنسپل اور اساتذہ شریک تھے۔ پچاس اردو کے اساتذہ اور پچاس طلبہ کو یاوارڈس دئے گئے۔ تقریبا (۴۲) انگریزی میڈیم مدارس کے ذمہ داران نے یقین دلایا کہ وہ نئے تعلیمی سال سے اردو کی تعلیم کا انتظام کریں گے۔اپنے پریزنٹیشن کے اختتام پر جمال قادری نے ایک قرار داد پیش کی جسے تمام حاضرین نے ہاتھ اٹھا کر منظور کیا ۔ قرارداد کا بالاختصار متن یوں ہے ۔ ’’سعودی عرب میں مقیم این آر آئز، محبان اردو اور دیگر معروف تنظیمیں اردو اکیڈمی جدہ کی وساطت سے حکومت تلنگانہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ آنے والے تعلیمی سال سے اردو کو ایک لازمی مضمون کے طور پر تمام مدارس میں شامل نصاب کرنے کے سرکاری احکام جاری فرمائے‘‘۔


آؤ اردو سیکھیں کے ضمن عبدالستار خان کا تیار شدہ پروگرام ’’لفظ کے صحیح ہجوں کو پہچانئے ‘‘ لیاقت علی خان نے پیش کیا۔ یہ کوئز پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی کے اسٹائل پر تیار کیا گیاتھا۔ اسکرین پر جملہ  (۱۰۰) نمبر پیش کرنے کے بعد شریک مقابلہ کسی ایک نمبر کا انتخاب کرتا ہے اور اس نمبر کے تحت درج شدہ لفظ جو چار طریقے سے لکھا ہوا ہوتا ہے نمودار ہوتا ہے۔ شریک مقابلہ کو کسی ایک صحیح لفظ کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے اور اگر وہ صحیح ہو تو اسے فوری انعام سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلم افغانی شعرگوئی کے مقابلہ ذمہ دار تھے ۔ اس مقابلے میں کوئی (۲۵) پرچیوں پر مختلف الفاظ لکھے ہوئے تھے ۔ شریک مقابلہ ایک پرچی اٹھاتا ہے اور اس پر جو لفظ لکھا ہو ، اس پر شعر سنائے، مثلا کسی کو لفظ ’’دل‘‘ نکلا تو اس نے دل پر شعر سنادیا اور انعام کا مستحق ہوگیا۔ شعر کے ادا کرنے میں بعض لوگ غلطی بھی کرتے ہیں ان کی اصلاح کے لئے جاوید اعظمی  اردو کے مدرس اور معروف شاعر الطاف شہریا ر کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔ ہر جیتنے والے کو  ریاض احمد، خالد حسین اور منور علی خان نے انعامات تقسیم کئے ۔ اس پروگرام کی تیاریاں گزشتہ دو ہفتوں سے جمال قادری اور سلیم فاروقی کی قیادت میں جاری تھیں اور اسے کامیاب بنانے میں  شیخ ابراہیم، محمد عباس خان ، محمد لیاقت علی خان، عبدالستار خان، رفعت صدیقی، عبدلمعز ، سیف الدین قادری اور فواد انور نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سلیم فاروقی کے شکریہ پر اس پانچویںسہ ماہی  اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔  

********************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 897