donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Tahir Jameel Doha Qatar
Title :
   Jamea Millia Islamia New Delhi Ka 92 wam Yaum Tasees


جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی کا ۹۴واں یومِ تاسیس


رپورٹ۔ محمد طاہر جمیل۔ دوحہ قطر


دیارِشوق میرا ،  دیارِ شوق میرا
شہرآرزو میرا ،  شہر آرزو میرا


    جامعہ ملیہ سے میرا تعارف زمانہ طالبعلمی سے ہے جب ہمارے کچھ دوست جامعہ ملیہ کالج ملیر کراچی سے پڑھ کر یونیورسٹی میں آئے تھے اور بڑے فخر سے اپنے آپ کو جامعی لکھا کرتے تھے۔ تب پتہ چلا کہ یہ  جامعہ ملیہ کالج تو دراصل جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی کا بچہ ہے  جسکی بنیاد  تو  ۱۹۲۰ میں انگریزوں کے زمانے میں تحریک ِ آزادی کے مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے رکھی تھی۔ یہ باوقار ادارہ ۹۴ سالوں سے زمانے کے تمام تر طوفانوں اور آندھیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہے  جس سے فیض یاب ہونے والے تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی مادرِ علمی پر نہ صرف فخر کرتے ہیں بلکہ اس کے یومِ تاسیس  کو منانا ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔


ؔیہ اہلِ شوق کی بستی یہ  سر پھروں کا دیار  
یہاں کی صبح نرالی یہاں کی شام نئی


    قطر میں بھی جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی کے سر پھرے بستے ہیں انہی میں سے ایک نجم الحسن خان ہیں جنہوں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ  دہلی المنائی قطر قائم کی پچھلے سال جلد بازی میں ایک چھو ٹا سا  پروگرام کیا  اس بار سوچا کہ اس بحر ِ  بیکراں میں چھلانگ لگا ہی دینی ہے  چنانچہ کئی   بڑے ناموں کو دنیا بھر سے بلانے کا ارادہ کیا،   انڈیا سے  جسٹس (ر) ایم ایس اے  صدیقی، چئر مین  قومی کمیشن برائے مائینورٹی ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ،  جناب سید  شاہدمہدی ( ای۔ اے۔ ایس) ، سابق وائس چانسلر جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی اور ڈاکٹر طلعت احمد موجودہ  وائس  چانسلرکے علاوہ  قطر کے بھی بڑے نام شامل تھے۔  ۳۰ جنوری ۲۰۱۵  کی شام ایک یادگار  شام تھی جب دوحہ کے  ۵  اسٹار ریڈیسن بلو ہوٹل کے کھچا کھچ  بھرے  وینس ہال میں  محمد خلیق صدیقی کا لکھا ہوا  جامعہ کا ترانہ گو  نج اٹھا۔

 ؎ ہوئے تھے آکے یہیں خیمہ زن وہ دیوانے
اٹھے تھے سن کے جو آوازِ رہبران، وطن

     صدائے رہبرانِ وطن پر یہاں خیمہ زن ہونے  والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے انہی  رہبرانِ وطن  میں ڈاکٹر ذاکر حسین تھے جو اس عظیم جامعہ کے  پہلے وائس چانسلر بنے جب کہ انکے بھائی ڈاکٹر محمود حسین نے کراچی کے جامعہ ملیہ کالج ملیر کی بنیاد رکھی اور اسکے پہلے پرنسپل بنے، یہ سلسلہ رہبران کا چلتا چلا  آ رہا ہے ۔   سید  شاہدمہدی صاحب اسی سلسلے کی کڑی ہیں  جو  آج کی اس شاندار تقریب کے صدر نشین اور قطر کی مشہور اور معروف سماجی اور کاروباری شخصیت  جناب  حسن چوگلے صاحب مہمانِ خصوصی  جبکہ سید عارف مہدی جو سید شاہدمہدی صاحب کے بھتیجے  اور قطر کی کئی کمپنیوں کے سی او ہیںمہمانِ اعزازی کی کرسی پر تشریف فرما ہوئے،  جسٹس (ر) ایم ایس اے  صدیقی او ر ر ڈاکٹر طلعت احمد کسی مجبوری کی بناء پر اس تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔ شکیل کاکوی  نے جامعہ  کا تعارف  پیش کیا  ۔  المنائی کے بانی  اور سرپرست  نجم الحسن  خان  اور  شاداب  خان بھی صدر تقریب اور مہمانانِ گرامی کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے۔ اسٹیج سجنے کے بعد آج کی اس عظیم الشان تقریب کی نظامت کی ذمے داری کا اعزاز قطر کے  بین الاقوامی شاعر عزیز نبیل   کے حصہ میں آیا جسے انہوں نے نہایت خوبصورتی سے نبھایا۔ بچوں نے صدر اور  مہمانان کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے۔ تقریب کا باقا عدہ آغاز ربِ جلیل کے با برکت کلام سے ہوا  جسکی سعادت  محمد اعظم خان  کو حاصل ہوئی۔ شاداب خان کے  خطبئہ استقبالیہ پیش کرنے کے بعد، تیاری کے ساتھ آئی ہوئی  جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی  المنائی قطر کے  ہو نہاروں نے جوش و جذبہ کے ساتھ جامعہ کا ترانہ پیش کیا ۔  مہمانِ اعزازی  سید عارف مہدی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا  اور اپنی موجودگی کو خوش قسمتی سے تعبیر کیا۔  مہمان خصوصی جناب  حسن چوگلے صاحب قطر کی  کئی انڈین تنظیموں کے سر پرست اعلیٰ  ہونے کے علاوہ انڈیا کی بھی کئی تنظیموں کی  مالی اور اخلاقی مدد کرتے ہیں۔  اسکولوں سے ان کا گہرا تعلق ہے  اور اس سلسلے میں وہ کمیونٹی کی ہر  طرح سے مدد کرتے ہیں کئی اسکولوں کے اعلیٰ بورڈ میں شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنی تقریر کا محور تعلیم کو  رکھا۔  عزیز نبیل نے صدر محفل  سید  شاہدمہدی صاحب کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ جس کے بعد صدر محفل  سید  شاہدمہدی صاحب نے اپنا صدارتی خطبئہ پیش کیا۔ جامعہ کی تاریخ بیان کی، اس دو ر کے جب وہ  وائس چانسلرتھے اپنی یاداشتیں دہرائیں۔ قطر میں المنائی کے قیام کو خوش آہند قرار دیا اور اس کے عہدیداران کو مبارکباد پیش کرنے ساتھ  یاد دلایا کہ جامعہ کا یوم تاسیس  اکتوبر ۲۹ کو ہوتا ہے اسے آئندہ ا سی تاریخ  یا اس کے قریب قریب  منانے کی کوشش کی جائے۔ تعلیم   کے معیار  کو  بلند کرنے پر  انہوں نے خصوصی زور دیا ۔ صدر محترم کی تقریر کے بعد تقریب کے دوسرے حصہ میں عزیز نبیل نے مشاعرہ کا اعلان کرتے ہوئے  کہا کہ اردو  مشاعرے ہماری تہذیب اور روایات  کا حصہ ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ قطر میں اردو کے بہترین شعراء موجود ہیں    اور آجکی اس تقریب میں  چند شعرائے کرام  اپنا  کلام پیش کریں گے ۔  طاہر جمیل اپنا کلام پیش کرنے آئے تو  جامعہ ملیہ کالج ملیر کراچی اور انکے اولین پرنسپلز ڈاکٹر محمود حسین اور ڈاکٹر احسان رشید کا ذکر کیا  تو صدر تقریب اس با ت  پر خاصے حیران ہوئے کہ  جامعہ ملیہ پاکستان میں بھی ہے  ۔ اور جن  دوسرے شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں اطہر ضیاء اعظمی، احمد اشفاق، ا شفاق دیشمکھ اور عزیز نبیل شامل تھے جنہوں نے  محفل کے مزاج کو دیکھتے ہوئے خوبصورت اور معیاری شاعری پیش کی اور خوب داد پائی۔  مشا عرہ کے اختتام پر صدر تقریب کو تحائف پیش کئے گئے  ۔ مہمان   خصوصی، مہمان اعزازی کے  علاوہ  کمیونٹی کے فعال رکن اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی کے بانی جناب حبیب النبی کو انکی سماجی  خدمات کے اعتراف کے طور پر، عزیز نبیل کو شاعری اور ادب  میں نمایاں مقام حاصل کرنے  اور آج کی اس  تقریب کی  شاندار نظامت پر، شکیل کاکوی کو تعلیمی میدان میں خدمات پر ، نجم الحسن  خان کو  انکی سماجی خدمات جبکہ  شاداب خان کو ٹی وی اور فلم کے شبعہ میں خدمات کے اعتراف کے طور پر  یادگاری شیلڈز  پیش کی گئیں۔ آج کی تقریب میں موجود شعراء کرام کو انکے شعر و ادب میں خدمات کے حوالے سے سپاس نامے پیش کئے گئے۔   المنائی کے  بانی   نجم الحسن  خان نے آخر میں  اظہار تشکّرکے ساتھ  پروگرام کی کامیابی پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور  تمام مہمانوں کا دلی شکریہ ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی مدتوں یاد رہنے والی تقریب کے شرکاء پر تکلف  عشایہ کے  بعد اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

 یہاں  پہ تشنہ لبی مئے کشی کا حاصل ہے۔  یہ بزمِ دل ہے یہاں کی صلائے  عام نئی۔


**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 782