donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ka Mahana Mushaira

 

قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر کا  ماہانہ مشاعرہ


رپورٹ:  افتخار راغبؔ


    اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے  قطر میں ۱۹۵۹ئ؁ سے سرگرمِ عمل تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام۱۹/ ستمبر ۲۰۱۴ئ؁  بروز جمعہ نو بجے  شب علامہ ابن حجر لائبریری فریج بن عمران کے وسیع ہال میں پر وقار طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔جہاں اس مشاعرے میں قطر کے کئی معیاری شعراے کرام نے شرکت کی وہیں دیگر ممامک سے ای میل کے ذریعے گیارہ شعراء نے اپنی طرحی غزلیں روانہ کر شرکت کرکے اِسے عالمی مشاعرہ بنا دیا۔ قطر  کے معروف شاعر ، انڈیا اردو سوسائیٹی کے نائب صدر جناب عتیق انظرؔ کی صدارت میں ہونے والے اس مشاعرے میں بحیثیتِ مہمانِ خصوصی و مہمانِ اعزازی مولانا سیف اللہ محمدی و جناب محمد خالد حسین شریک ہوئے۔ مولانا سیف اللہ محمدی عالمِ دین ہیں اور بہت ہی عمدہ ادبی ذوق رکھتے ہیں ۔ بزم کے مشاعروں میں عرصے سے ای میل سے موصول غزلوں کو بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔مہمانِ اعزازی جناب محمد خالد حسین انڈین ایسوسی ایشن فار بہار اینڈ جھارکھنڈ  کے میڈیا سکریٹری ہیں  او ر اردو شاعری سے بے انتہا رغبت رکھتے ہیں۔ مشاعرے کی نظامت بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری  اور تین مجموعۂ غزلیات کے خوش فکر شاعر جناب افتخار راغبؔ نے کی ۔ بزم کے سینیئر سرپرست جناب سید عبد الحئی کی تلاوتِ کلامِ پاک سے باضابطہ  و بابرکت آغاز ہوا۔ تلاوت کے بعد دلکش آواز کے مالک نعت خواں جناب مقصود سلطان پوری نے اپنی  پسند کی ایک  نعتِ پاک پیش کر کے  باذوق سماعتوں کو مسحور کرتے ہوئے خوب داد و تحسین کمائی ۔  نعت کا مطلع ہے:

جسے کہتے ہیں جنت میں وہ زینہ دیکھ لیتا ہوں
میں آنکھیں بند کرتا ہوں مدینہ دیکھ لیتا ہوں

    بزمِ اردو قطر کے صدر جناب شادؔ اکولوی نے  تمام شعرا و سامعین کا تہہِ دل سے استقبال کیا اور بزم اردو قطر کے موقف کا عیادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قطرمیں مقیم تمام اردو سے محبت رکھنے والوں کا بزم اپنے پروگراموں میں خیر مقدم کرتی ہے ۔  صدرِ بزم کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ناظمِ مشاعرہ افتخار راغبؔ نے مجروحؔ سلطان پوری کاایک شعر پیش کیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مجروحؔ نے یہ شعر بزمِ اردو قطر کے لیے ہی لکھا ہے:

یہ محفلِ اہلِ دل ہے یہاں ہم سب مے کش ہم سب ساقی
تفریق کرے انسانوں میں اِس بزم کا یہ دستور نہیں

    نثر پارہ کے طور پر  بزمِ اردو قطر کے سرپرست و گزرگاہِ خیال فورم کے بانی و صدر ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے اس بار سرسید احمد خان کا ایک دلچسپ مضمون ’’خوشامد‘‘  منتخب کیا تھا جسے جناب سید آصف حسین نے بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کر کے حاضرین کو محظوظ کیا۔ مجروحؔ سلطان پوری کے مندرجہ ذیل شعر کے مصرعۂ ثانی کو بطور طرح دیا گیا تھا:

مجھے نہیں کسی اسلوبِ شاعری کی تلاش
تری نگاہ کا جادو مِرے سخن میں رہے

      ناظمِ مشاعرہ جناب افتخار راغب ؔ نے ڈاکٹر خلیق انجم کا تحریر کردہ مجروحؔ سلطان پوری کا مختصر تعارف پیش کیا جسے سامعین نے خوب سراہا۔ اس کے بعد بزمِ اردو قطر کے نائب صدر جناب فیروز خان نے ایک ادبی لطیفہ پیش کر کے محفل میں قہقہوں کی لہر دوڑا دی۔ دورانِ مشاعرہ ناظمِ مشاعرہ نے مجروحؔ سلطان پوری کے متعدد منتخب اشعار بھی پیش کیے۔مشاعرے کی طرف بڑھنے سے قبل مجروحؔ سلطان پوری کی اُس غزل کی ریگارڈینگ انھیں کی آواز میں پیش کی گئی جس سے مصرعِ طرح دیاگیا تھا:

جنھیں شعورِ جنوں ہے وہ جس چمن میں رہے
بہار بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے
سرشک رنگ نہ بخشے تو کیوں ہو بارِ مژہ
لہو حنا نہیں بنتا تو کیوں بدن میں رہے

    مختلف ممالک سے  ای میل کے ذریعے موصول غزلوں میں سے اس بار گیارہ  غزلیں منتخب کی گئیں جن کے منتخب اشعار پیش کیے گئے ۔جناب روئیسؔ ممتاز نے محترمہ رضیہؔ کاظمی (امریکہ) ، جناب شادؔ اکولوی نے جناب احمد علی برقیؔ اعظمی (دہلی) و جناب فضل عباس فاضلؔ (ممبئی) ، جناب ذوالفقار ابراہیم نے جناب شاہین فصیح ربانی (مسقط) ، جناب مظفر نایابؔ نے جناب نقشبند قمر نقوی (امریکہ)  اور جناب سیف اللہ محمدی نے جناب شمشاد علی منظری (ٹانڈہ ، ہندوستان)  کی طرحی غزلیں اپنے اپنے منفرد انداز میں پیش کر کے محفل کے آہنگ کو عروج بخشا۔ ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ) کی غزل جناب سید عبد الحئی نے مجروحؔ سلطان کے انداز اور ترنم میں پیش کر کے سب کو حیران کر دیا۔ ناظمِ مشاعرہ جناب افتخار راغبؔ نے محترمہ عالیہؔ تقوی (الہٰ آباد )، جناب یعقوب اطہرؔ (راجن پور ، پاکستان) ، جناب تنویر پھولؔ (امریکہ) اور محترمہ ذہینہ صدیقی دہلی

کی غزلوں سے منتخب اشعار پیش کیے۔  چند اشعارملاحظہ فرمائیے:


ذہینہؔ صدیقی (دہلی

کچل نہ جائیں کہیں خوف تھا ہمیں پھر بھی
زبان بن کے تری ہم ترے دہن میں رہے

فضل عباس فاضلؔ (ممبئی

اب اتنا شور شرابا ہے بستیوں میں کہ بس
جسے سکون سے رہنا ہو جاکے بن میں رہے

یعقوب اطہرؔ (راجن پور، پاکستان

تمھارے ہاتھ سے نکلے تو پیرہن میں رہے
صبا نے ڈھونڈ لیا ہے وہ کس بدن میں رہے

تنویر پھولؔ(امریکہ

ہیں جتنے زاغ و زغن، دُور ہوں سبھی واں سے
خزاں کا کوئی سفیر اب نہ اُس چمن میں رہے

عالیہؔ تقوی (الہٰ آباد

تمھیں نبھانے کی عادت نہیں تو یوں ہی سہی
ہمیں بھی ضد ہے کہ رسمِ وفا چلن میں رہے

رضّیہ کاظمی (امریکہ

کہیں ہیں قیمتی پردے دروں پہ آویزاں
کسی کے کتنے ہی پیوند پیرہن میں رہے

احمد علی برقی اعظمی (دہلی

مشامِ جاں ہو مری وجد آفریں اس سے
شمیمِ زلفِ گُل اندام پیرہن میں رہے

شاہین فصیحؔ ربانی

یقین جان کہ ہم بات کرنا جانتے ہیں
یہ اور بات کہ چپ تیری انجمن میں رہے
تلاش کرتے کوئی اور کیا ٹھکانہ فصیحؔ
ہم ان کی سوچ میں ٹھہرے ہم ان کے من میں رہے

نقشبند قمرؔ نقوی (امریکہ

گروہِ نبض شناسانِ فکر و فن میں رہے
کمالِ حسنِ معانی اگر سخن میں رہے
امید قدر شناسی کی وقت سے رکھی
ہم اِک زمانہ طلسماتِ حسنِ ظن میں رہے

شمشاد علی منظری (ٹانڈہ، ہندوستان

وہ زندہ لوگ برہنہ ہیں اُن کو ڈھک دینا
ہماری لاش ضروری نہیں کفن میں رہے
ہوئی نہ ختم ہمارے بدن کی عریانی
جدید دور میں ہم ایسے پیرہن میں رہے
ترے خیال میں اس طرح زندگی گزری
ہمیں لگا کہ صدا تیری انجمن میں رہے

ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ

چھلک رہے ہیں وہ مثلِ نگاہِ دوزدیدہ
جو لفظ چھپ کے ترے حلقۂ دہن میں رہے
یہ سوچ کر ترے پہلو کا تذکرہ چھیڑا
کہ تیرے قرب کی حدّت مرے بدن میں رہے
یہ سوچ کر تجھے پہنائی خلعتِ الفاظ
کہ میرا حسنِ بیاں تیرے بانکپن میں رہے

    مقامی شعرا میں سب سے پہلے سحر انگیز ترنم کے مالک شاعر جناب مبارک حسین حافظ ؔ نے اپنی دلکش طرحی غزل  میں حالاتِ حاضرہ کی عکاسی کرتے ہوئے با ذوق سماعتوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

مبارک حسین حافظؔ

ہر ایک پودے کو ایسی فضا میسر ہو
کہ شاد کام ہر اِک پھول اس چمن میں رہے
سکوں نصیب ہو سب کو یہی دعا ہے مری
ہمیشہ امن کا موسم مرے وطن میں رہے

    بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے منفرد ترنم اور خاص انداز میں اپنی ایک غیر طرحی غزل پیش کر کے سامعین کے دلوں پر خوب جادو جگایا۔ 

وزیر احمد وزیرؔ

خشک پتّا ہوں مجھ کو کیا معلوم
لے اُڑے کب ہوا کدھر مجھ کو
ایک منزل کی جستجو میں وزیرؔ
کتنے درکار ہیں سفر مجھ کو

    ملیسیا میں پلے بڑھے نوجوان شاعر و بزم کے میڈیا سکریٹری جناب روئیسؔ ممتازنے ایک پُر احساس نظم بعنوان ’’میں اور وہ‘‘ پیش کی جسے سامعین نے خوب پسند کیا ۔

روئیسؔ ممتاز

میں کہ سب کہتا ہوں لیکن کچھ نہیں کہتا ہوں میں
وہ کہ کچھ کہتے نہیں پر کیا نہیں کہتے ہیں وہ

مترنم شاعر جناب مقصود انور مقصودؔ  کی طرحی غزل نے بھی خوب داد و تحسین وصول کی

۔ مقصود احمد مقصودؔ

یہ بت گری کا ہنر تم کو ہی مبارک ہو
مری دعا ہے مرا نام بت شکن میں رہے
لہو بہا کے بناتے رہے جو گھر مقصورؔ
وہ چھت کی آس میں اکثر کھلے گگن میں رہے

     حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے نائب سکریٹری جناب مظفر نایابؔ نے اپنی پروقار آواز اور منفرد انداز میں اپنی مرصع غزل پیش کی اور سامعین نے بھی ہر شعر پر دل کھول کر داد دی۔

مظفر نایابؔ

شکن جبین پہ آئے تو کوئی بات نہیں
اگر گلوں کا تبسم شکن شکن میں رہے
چمن چمن میں ہماری بہار تھی بے شک
کہ ہم بہار کی صورت چمن چمن میں رہے
وہ جیسے شمس میں ہے طاقت و توانائی
اُنھیں صفات کا پرتو کرن کرن میں رہے

    ناظمِ مشاعرہ  و  بزمِ اردو قطر اور حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ  نے اپنی دل کش طرحی غزل سے مشاعرے کے آہنگ کو مزید بلند کیا۔

افتخار راغبؔ

کسی بھی طرح رگِ دل کی یہ لگی نہ بجھی
سو تا حیات سلگتے اِسی اگن میں رہے
جو مجھ پہ گزرے اُسے مسکرا کے میں سہہ لوں
مرے خدا نہ خلش کوئی اُن کے من میں رہے
نہیں قبول اُنھیں کوئی نکتہ چیں راغبؔ
کرے جو مدحتِ گل چیں وہی چمن میں رہے

    بزمِ اردو قطر کے صدرجناب شادؔ اکولوی جہاں ایک اچھے شاعر ہیں وہیں کلام پیش کرنے کا بھی اچھا انداز جانتے ہیں۔ کلام پیش کرتے ہوئے آپ کے چہرے کی شگفتگی سامعین کی توجہ کو پوری  اپنی طرف مرکوز کر لیتی ہے۔

شادؔ اکولوی

ہراِک کو موت ہے چاہے جس انجمن میں رہے
کہیں دعا میں ہو بیٹھا کسی ہوَن میں رہے
قدم اُسی کے تو چومے گی کامرانی بھی
جو جان و دل سے کسی ایک ہی لگن میں رہے
یہ سوچ کر کہ کسی کی کبھی نظر نہ لگے
ہر اِک ادا تری محسوس من ہی من میں ہے

     انڈیا اردو سوسائٹی  کے بانی صدر و شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی اپنے دلکش ترنم میں جب کلام پیش کرتے ہیں تو محفل میں سرور و کیف کی ایک انوکھی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جناب جلیلؔ نظامی نے  خاص اہتمام سے مجروحؔ سلطان پوری کی زمین میں کہی اپنی عمدہ طرحی غزل کو ترنم میں پیش کر کے مشاعرے کو عروج کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 

جلیلؔ نظامی

جنوں پسند اگر مطمئن چمن میں رہے
تو دشت کیسے ہو آباد کون بن میں رہے
نہ کر سکے جو بیاں حالِ دل وہ لب ہی کیا
زباں ہو گنگ تو کیوں حلقۂ دہن میں رہے
یہ اعتراف غنیمت ہے کور چشموں کا
ہم آفتاب کی مانند انجمن میں رہے
نگاہِ شوق میں اپنی قمر قمر ہے جلیلؔ
اُفق پہ ہو وہ نمودار یا گہن میں رہے

    آخر میں صدرِ مشاعرہ ، انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر جناب عتیق انظرؔ نے اپنی طرحی غزل پیش کی اور مشاعرے کا کامیابی کے ساتھ اختتام کیا۔

عتیق انظرؔ

ہمارے بعد چراغوں کو کون دیکھے گا
تمام عمر یہاں ہم اِسی گھٹن میں رہے
میں خود کو سب سے بڑا خوش نصیب سمجھوں گا
مری زبان اگر آپ کے دہن میں رہے
زباں کھلی تو بکھر جائیں گے سبھی رشتے
سو اب ہے ٹھیک یہی من کی بات من میں رہے

    مہمانِ اعزازی جناب خالد حسین نے اپنے اظہارِ خیال میں فرمایا کہ اتنی مصروفیت کے دور میں اردو ادب کے فروغ اور ادبی ذوق کی تسکین کے لیے وقت نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بزمِ اردو قطر کے ساتھ ساتھ تمام شعرا و سامعین مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مہمانِ خصوصی جناب سیف اللہ محمدی نے کہا کہ میں بزم کے مشاعروں میں برسوں سے شرکت کر رہا ہوں۔میں نے محسوس کیا ہے کہ شعراے کرام کا تخلیقی معیار کافی بلند ہوا ہے اور بزمِ اردو قطر کے مشاعرے میںاس معیار کے اشعا رسننے کو ملتے ہیں کہ جن کو سن کر دل خوش ہو جاتا ہے۔گزشتہ مشاعروں کی طرح آج کا طرحی مشاعرہ بھی معیارِ کلام کے اعتبار سے بہت کامیاب رہا جس سے کثیر تعداد میں موجود سامعین محظوظ ہوئے ۔

    صدرِ مشاعرہ جناب عتیق انظرؔ نے صدارتی تقریر میں طرحی مشاعروں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بزمِ اردو قطر کو مبارک باد پیش کی کہ یہ تنظیم کئی دہائیوں سے مسلسل طرحی مشاعرے کا انعقاد کر رہی ہے۔ آپ نے تمام شعراے کرام کے طرحی کلام کی پزیرائی کی اور فرمایا کہ شعرا کی کثیر تعداد یا طرحی غزل میں اشعار کی بہتات اہم نہیں ہے بلکہ معیاری شعرا  کی موجودگی اورعمدہ شاعری ہی کسی مشاعرے کو کامیاب بنانے کے لیے زیادہ اہم ہیں۔ نثری حصے کا اضافہ اور ادبی لطیفہ کی شمولیت بھی نشست کو  اور کامیاب بنانے کے لیے اچھا تجربہ ثابت ہوا ہے۔ آخر میں بزم کے خازن جناب محمد غفران صدیقی نے تمام شعراے کرام و معزز سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ لذیز ضیافت اور گروپ فوٹو کے بعد مشاعرے کا اختتام ہوا ۔شعراے کرام و دیگر شرکاے مشاعرہ کے علاوہ نمایاں شرکاء میں  نصیر احمد کاتب ، افسر عاصمی ، علیم اختر (جنرل سکریٹری ،آئی اے بی جے)،  علی عمران (صدر، اے ایم یو الومنائی ایسو سی ایشن) ، اکرام الدین ،  محمد غوث،  عبد الحکیم، وحید احمد ، اشفاق احمد،  قطب الدین بختیار،حامد رضا ،عدنان خان، نور الدین ، سید رضا،  شاہنواز اختر ، ابرار عالم انصاری ، ذکی انور ، محمد آفتاب ،  شمس الحق خان، امام حسین ، محمد اجمعین ، محمد آفتاب ، نورالدین ، ادیب جیلانی ، سید اسماعیل ، غلام احمد صاحبان کے اسماے گرامی شامل ہیں۔

رپورٹ:  افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر
موبائیل:55707870


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 769