donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Habib Saifi
Title :
   Amjad Islam Amjad Ke Aezaz Me Adbi Nishist

غالب اکیڈمی میں ہمسایہ ملک کے ادیب

امجد اسلام امجد کے اعزاز میں ادبی نشست


فطری طور پر میں شاعر ہوں اور مجھے خوشی ہوگی

اگر مجھے بحیثیت شاعر یاد کیاجائے گا۔امجد اسلام امجدپاکستان

 

نئی دہلی  مرکز ادب غالب اکیڈمی دہلی میں پڑوسی ملک پاکستان کے شہر لاہور سے آئے مہمان ادیب وشاعراور معروف ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی آمد پر اکیڈمی کی طرف سے اعزازیہ کا اہتمام کیاگیا۔ جس کی صدارت غالب اکیڈمی گورننگ کونسل کی رکن ادیبہ وفنکشن نگارڈاکٹر ترنم ریاض اور نظامت عازم کوہلی نے فرمائی۔اس موقع پرڈاکٹر جی آر کنول نے فنی محاسن ،ایڈیٹر زبیر رضوی نے کلچرل اور ثقافت ،پروفیسرشہپر رسول نے غزل ونظم، اور عازم کوہلی نے اپنی امجد اسلام امجد سے قربتوںاور دیرینہ تعلقات کاذکر کیا۔امجد اسلام امجد جن کے 15شعری مجموعے اور 45سے زیادہ دیگر اصناف پر کتابیں ہیں ان کے اعزاز میں رکھی گئی نشست میں ادیب وشعرا ،صحافیوںکی کثیر تعدادغالب اکیڈمی میں دیکھی گئی

۔امجد اسلام امجد نے اپنی زندگی کے سفر پر جامع انداز میں روشنی ڈالی اور عمدہ شاعری سے سامعین کو نوازا۔مہمان ادیب امجد اسلام امجد نے ڈائس سے کہاکہ میرا ہمہ جہت شخصیت کامالک ہونا بڑی بات نہیں کیونکہ غالب نے کہاتھا کہ میں یک فنا ہو مگر ایسا نہیں تھا،غالب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ،اسلئے میں ڈرامہ نگار اسکیرپٹ رائٹر،شاعر وادیب اورجو کچھ بھی ہوں وہ عطا ئے خدا وندی ہے ۔یہ تو بہ ہر حال ماننا پڑے گا اورمیں کہتا ہوں کہ میں نے شاعری کو ڈرامہ نگاری پر قربان نہیں کیا،ہاں وارث جیسے ڈرامہ نے مجھے راتوں رات عروج کی بلندیوں پر پہنچادیااور آج بھی میرا نام دونو ں ممالک کی عوام کی زبانو ںپر ہے۔امجد اسلام امجد کا کہناتھا کہ آج تخلیقی حوالوں سے نئی راہیں روشن ہوئی ہیں ،سچ تو یہ شاعری اور ڈرامہ نگاری میں کوئی حد فاصل نہیں ہے،کیمرہ کی ایجاد نے نئی ڈیوینشن دی ہے،ہم سب اپنے لئے اگر اپنے مقصد کی چیزین دریافت کرتے ہیں تو حیرانی کی بات نہیں۔رہی بات ڈرامہ نگاری کی تو میں نے 1980سے 2001تک صرف 9ڈرامہ لکھے اور ہر ڈرامہ کے دوران دوسال سے زیادہ کاوقفہ دیا،جو توقعات عوام نے مجھ سے لگائیں ان پر کھرا اترنے کی کوشش کی اور اللہ تعالی ٰکا شکر ہے کہ مجھے آج عزت وشہرت اور دولت غرض یہ کہ سبھی کچھ حاصل ہے ،زیادہ کی تمنا میں بھاگ دوڑ کرنا میں نے گوارہ نہیں کیا۔اردو نے مجھے بہت کچھ ہی نہیں سب کچھ دیاہے، میں یہ محسوس کررہاہوں کہ اگر آج اردورسم الخط کی طرف توجہ دی جائے تو مزید اردو زبان فروغ پائے گی، آنے والے 10برسوں میں اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہوجائے گی، کیونکہ اس کی مقبولیت ساری دنیا میں یکساں ہے اور اسے آسانی سے سیکھ بھی لیا جاتاہے۔امجد اسلام امجد نے زور دیتے ہوئے کہاکہ فطری طور پر میں شاعر ہوں اور مجھے خوشی ہوگی اگر مجھے بحیثیت شاعر یاد کیاجائے گا۔مہمان ادیب نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ  ؎ محبت ایسا دریاہے،یہ بارش کم بھی ہوجائے ،تو پانی کم نہیں ہوتا۔یاد رہے آئی سی سی آر والوں کی طرف سے بیگم اختر ایوارڈ لینے کے لئے امجد اسلام امجد بھارت آئے ہوئے ہیں ،انڈیا ہیی ٹائٹس سینٹر میں یہ تقریب 7 اکتوبر کی شام میں منعقد کی جائے گی۔نشست کے آغاز پر سکریٹری غالب اکیڈمی ڈاکٹر عقیل احمد نے اردو رسم الخط کے فروغ پر زور دینے کی بات کہی اور کہاکہ آج اردو رسم الخط کی بقا کا مسئلہ ہے،لسانی سطح پراردو مقبول ہے۔غالب اکیڈمی کا قیام مرحوم حکیم عبد الحمید نے جس مقصد کے تحت کیاگیا تھا اسے پورا کیاجانا ہی ہمارا مقصد ہے ۔متین امروہوی نے منظوم استقبالیہ پیش کرنے کے بعد شاعری سے محظوظ کیا۔صدارتی کلمات میں ڈاکٹر ترنم ریاض نے کہاکہ ہم اورہمارے  ہمسائے زبان کی بنیاد پر جڑے ہوئے ہیں اردو زبان جب تک زندہ ہے ہماری قربتیں زندہ رہیں گی ۔اور کلچر ل وثقافت کی بنیاد پر میں یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح ہمارے ملک میں جاں نثار اختر گلزار اور جاوید اختر ہیں اسی طرح پاکستان سے آئے امجد اسلام امجد بھی ہیں ۔ہم توقع کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام خوشحال مستقبل کے زندگیاں جئیں گے

۔ادبی نشست کے اہم شرکاء میںکے ایل نارنگ، اسرار جامعی، ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی،انجم عثمانی ،شہباز ندیم ضیائی،حبیب سیفی ، نسیم عباسی،راز سکندرآبادی،وریندرقمر، عبد الرحمٰن منصور،زہینہ صدیقی،بیگم وسیم راشد،اجے کمار عکس،ڈاکٹر واحد نظیر،ناگیش چندرا،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔سردار عازم کوہلی نے تمام شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے نشست کے اختتام کااعلان کیا۔


رپورٹ : حبیب سیفی


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 526