donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Faisal Haneef
Title :
   Qatar Me Iqbal Academy Middle East Ka Doosra Iqbal Seminar

 

قطر میں 'اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ' کا  دوسرا 'اقبال سیمینار'

 

جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا  آرزو میری  یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے

    جوانوں کو شاعرِمشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی آہِ سحر دینے، بادۂ  شوق سے ہشیاری کا سبق اور عمل گیری کی ترغیب دینے، نغمہ ٔ درد و دل افروز سنانے اور اس عظیم مفکر، غمِ دوراں کے  نوحہ خواں اور عظمتِ انسان کے قصیدہ خواں کا نور ِبصیرت عام کرنے کی خاطر، قطر میں مقیم ادیب، محقق اور تنقید نگار ڈاکٹرفیصل حنیف خیالؔ نے دسمبر ۲۱۱۳ئ؁ میں اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کی بنیاد رکھی تھی-

اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے بنیادی مقاصد یہ ہیں:

اقبال کے پیغام اور شاعری کو اہل اردو اور غیر اردو داں طبقوں تک پہنچانا، خاص طور پر انگریزی اور عربی بولنے والوں تک، اقبال سیمینار کا انعقاد، نومبر میں یوم اقبال کی مناسبت سے اقبال پر لیکچر کا انعقاد، اقبال کے کام پر سال میں اردو اور انگریزی میں ایک تحقیقی کتاب کا شائع کرنا، اقبال کی شاعری کا ترجمہ انگریزی اور عربی زبانوں میں کرنا، اقبالیات پر مبنی مختلف زبانوں میں کتابیں اکٹھی کر کے لائبریری کا قیام،  اقبال فہمی نشستوں کا انعقاد،  اقبال اکیڈمی کے کام کا دائرہ قطر اور باہر کے ملکوں میں وسیع کرنا، سکولوں میں اقبالیات کے حوالے سے تقاریب کا اہتمام  اور اقبال کے فارسی کلام کی تفہیم-

اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ نے حال ہی میں علامہ ابن حجر لائبریری (دوحہ) قطر میں اقبال سیمینار بعنوان: جاوید نامہ: انسان سازی کا شاہکار از :  ممتاز دانشور، ادیب اور محقق جناب ڈاکٹر سیّد تقی عابدی (کینیڈا) کا اہتمام کیا - علمی و ادبی شخصیت جناب وحید داد خان نے مسند صدارت کو رونق بخشی، جبکہ جناب  ڈاکٹر سیّد تقی عابدی نے مہمانِ اعزازی کی مسند پر جلوہ ہوئے۔

دانائے راز علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردو شاعر ہیں جن کے کلام کی آفاقیت، گہرائی اور گیرائی، اور رنگا رنگی انہیں ایک ہمہ جہت شاعر ثابت کرتی ہے- ان کا ہر شعر ان کے فنی خلوص سے معمور نظر آتا ہے- اقبال بطورِ مفکر ایک خاص مقام کے مالک ہیں- اقبال کو خدا نے خیالات کو آسان اور دلربا انداز میں کہنے اور الفاظ برتنے کا خاص ہنر اور سلیقہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی شاعری سوز و گداز اورخاص کیفیات کی حامل ہے جس میں جلال و جمال کی ایسی آمیزش ملتی ہے  جو سننے والوں پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو روشن اور معطر کر دیتی ہے- کلامِ اقبال میں افکار اور فلسفیانہ خیالات کی بہتات ہے- نظریۂ  خودی، فلسفۂ حیات، عرفانِ ذات، تسخیرِ کائنات، وحدت الوجود، کشمکشِ خیر و شر، نظریۂ ریاست، تصورِ فقر، تصور ِعشق، علاماتِ اقبال (شاہین، مردِ مومن، خونِ جگر) شاعری سے زیادہ افکار کے زمرے میں آتے ہیں- ان اور ان سے ملتے جلتے  موضوعات پر اقبال نے بھرپور خامہ فرسائی کی ہے جو ان کی شاعری میں فلسفے اور اسلامی سوچ کے عمل دخل کا ثبوت ہے-

آج کی تقریب خاص الخاص ہے-  لحن شیریں کے مالک، گفتگو میں آسمان کے تارے توڑ لانے والے، جناب محمد  رفیق شادؔ اکولوی،  شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ عالم بھی ہیں، جو آج کی تقریب کے  ناظم ہیں - ان کے ہر فقرے میں سموئی  علمیت اور اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کا برجستہ استعمال ، محبانِ اقبال کو روح کو تازہ اور  اور روحِ اقبال کو شاد کر دیا  - جناب شاد ؔ اکولوی قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم  بزم اردو قطر کے صدر ہیں-

 جناب ابوالخیر ، جناب عبد الغفار  اور انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر  شاعر خلیج جناب جلیلؔ نظامی کلام ِاقبال کے شایان شان تخت الفظ اور ترنم میں اقبال کا فارسی اور اردو کلام حاضرین کے سامنے  پیش کرتے ہوئے سحر امروز اور سحر فردا کا ماخذ بتلا کر محفل میں نور بھردیا  اور حاضرین کے دلوں کو جذبۂ  ایمانی سے گرما کرجگر لالہ میں ٹھنڈک کا سامان مہیا کر دیا -

آج کی محفل کی رونق ، نامور ادیب و دانشور جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی ہیں، جو کینیڈا سے اقبال کا نور بصیرت عام کرنے اور اقبال فہمی کے باب میں ہمارے وجدان کو سکون پہچانے تشریف لائے ہیں-

 جناب عبد الغفار نے علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم 'تنہائی' اردو ترجمے کے ساتھ پیش کی- جس کے دو بند پیش ہیں

تنہائیبہ بحر رَفتَم و گْفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طَلَب استی چہ مشکلے داری؟
ہزار لْولْوے لالاست در گریبانَت
درونِ سینہ چو من گوھرِ دِلے داری؟
تَپید و از لَبِ ساحِل رَمید و ہیچ نَگْفت


"میں سمندر پر گیا اور بیتاب، بل کھاتی ہوئی لہر سے پوچھا، تْو ہمیشہ کسی طلب میں رہتی ہے تجھے کیا مشکل درپیش ہے؟ تیرے گریبان میں ہزاروں چمکدار اور قیمتی موتی ہیں لیکن کیا تو اپنے سینے میں میرے دل جیسا گوھر بھی رکھتی ہے؟ وہ تڑپی اور ساحل کے کنارے سے دور چلی گئی اور کچھ نہ کہا۔"

بہ کوہ رَفتَم و پْرسیدَم ایں چہ بیدردیست؟
رَسَد بگوشِ تو آہ و فغانِ غم زدئی؟
اگر بہ سنگِ تو لعلے ز قطرۂ خون است
یکے در آ بَسْخن با مَنِ ستم زدئی
بخود خَزید و نَفَس در کَشید و ہیچ نَگْفت

"میں پہاڑ پر گیا اور اس سے پوچھا، یہ کیا بیدردی ہے، (تیری اتنی اونچائی ہے کہ) کیا کبھی تیرے کان تک کسی غم زدہ کی آہ و فغان بھی پہنچی ہے؟ اگر تیرے بے شمار قیمتی پتھروں میں میرے دل جیسا کوئی لعل ہے تو پھر ایک بار مجھ ستم زدہ سے کوئی بات کر۔ وہ اپنے آپ میں چھپا، سانس کھینچی اور کچھ نہ کہا۔"

جناب جلیلؔ نظامی نے ترنم میں نظم 'مسجد قرطبہ' پیش کی- علامہ اقبال اپنے ایک  خط میں سفر اسپین کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ ’’ میں اپنی شاعری سے اس قدر لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی گئی۔جو کسی وقت شائع ہوگی۔الحمراء  کا تو مجھ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچا یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔"

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہوکسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام

مشاعرے  میں دوحہ کے  جن بہترین شعرائے کرام  نے اپنا کلام پیش کیا ان میں جناب جلیلؔ نظامی ، جناب عتیق انظرؔ ، جناب فرتاشؔ سید ، جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی ، جناب افتخار راغبؔ اور جناب روئیسؔ ممتاز کے اسماے گرامی شامل ہیں۔ مشاعرے کے بعد جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اقبال کی کتاب 'جاوید نامہ' پر اپنا مقالہ پیش کیا-

جاوید نامہ فارسی شاعری کی ایک کتاب ہے جو مثنوی کی شکل میں ہے اور تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1932ئ؁  میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے- یہ کتاب دراصل علامہ اقبال کا افلاک کا خیالی سفر نامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا رومی انہیں مختلف سیاروں اور افلاک کی دوسری جانب (آں سوئے افلاک) کی سیر کرواتے ہیں۔ اقبال نے اس کتاب میں اپنے آپ کو زندہ رود کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ اس سفر میں وہ مختلف مشاہیر اور لوگوں سے ملتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کے خیالات کے بارے میں جانتے ہیں۔ اقبال اور رومی جب آسمانوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں۔ فلک قمر پر انکی ملاقات ایک "جہاں دوست" سے ہوتی ہے، جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی "وشوامتر" ہے۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی یرغمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا تھا۔ فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں

علامہ و رومی جب فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں تو علامہ رومی سے دریافت کرتے ہیں کہ یہاں زندگی کے آثار تو نظر نہیں آ رہے لیکن اذان کی آواز سنائی دے رہی ہے تو رومی فرماتے ہیں کہ یہ دراصل اولیاء اللہ کا مقام ہے اور پھر علامہ سے کہتے ہیں کہ جلدی کرو کہ ہمیں ان بزرگوں کے ساتھ نماز مل جائے اور سوز و گداز کی نعمت ہاتھ آئے جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو انہیں دو آدمی نماز کی حالت میں دکھائی دیتے ہیں، جمال الدین افغانی امام تھے اور سعید حلیم پاشا مقتدی۔ رومی علامہ سے فرماتے ہیں کہ مشرق نے ان آدمیوں سے بہتر کسی کو نہیں جنا کہ جن کے ناخنوں (تدبیر) نے ہمارے عقدے کھولے ہوں-  علامہ مشرق اور مغرب کے خیالات اور ان کے فلسفوں کے متعلق سعید حلیم پاشا کی زبانی اپنی ملاقات کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپنے ان خیالات کو دہراتے ہیں جو  ان کی شاعری کے آخری دور میں جا بجا موجود ہیں، جن میں مغرب اور مشرق کے تقابل کے ساتھ ساتھ علم اور عشق پر بحث ہے۔ اس حصے میں مصطفیٰ کمال اتاترک کا ذکر بھی آیا ہے اور جس کے متعلق اقبال اس کتاب کی تصنیف تک اپنا یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ اس نے کوئی نیا نظام نہیں دیا بلکہ مغرب کی ہی پرانی چیزیں ہیں۔

فلکِ عطارد سے رومی اور علامہ فلکِ زہرہ پر پہنچتے ہیں، فلک زہرہ کی فضا کی منظر کشی کرنے کے بعد علامہ نے اس فلک پر دو خوبصورت منظر دکھائے ہیں۔ پہلے منظر میں قدیم قوموں کے بتوں کی ایک مجلس دکھائی ہے جب کہ دوسرے منظر میں فرعون، لارڈ کچنر اور مہدی سوڈانی کی ارواح سے ملاقات دکھائی ہے۔

مقالے کے بعد حاضرین کو اپنے سوالات پوچھنے کا موقع دیا گیا- اس کے بعد اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین ڈاکٹر فیصل حنیف اور اس کے ڈائریکٹرز جناب محمد رفیق شاد اکولوی اور جناب  افتخار راغب صاحبان نے جناب ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کو اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کی جانب سے ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں اعزاز سے نوازا-  

کثیر تعداد میں اقبال شناس اور محبانِ اقبال نے اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کی اس تقریب کو رونق بخشی اور اس سیمینار کو  کامیاب بنا کر روحِ اقبال کو مسرور کیا-  


روداد نگار:

  ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ
بانی و چئیرمین  

اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ

*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 752