donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Saghar Ko Mere Haath Se Lena Ke Chala Main


 

’ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں‘


صابررضارہبر


یہ ۲۰۰۶ ء کا واقعہ ہے۔ جام نور کی ایک ٹیم مدارس اسلامیہ کا سروے کرنے کے لیے نکلی تھی کہ جام نورکے تعلق سے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کیانظریہ رکھتے ہیں؟ اس پروگرام کے تحت مولانا اسیدالحق محمد عاصم القادری اورمولانا خوشترنورانی الجامعۃ الاشرفیہ پہنچے تھے ۔عزیزالمساجد میں بعدنماز عشاوہ طلبہ سے خطاب کررہے تھے۔’’آج جس طرح سے مظفرنگر کی عمرانہ کا معاملہ ہرخاص وعام کی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اسی طرح جام نورکا ابوالفیض معینی بھی آج کا سلگتا ہوا موضوع ہے۔ہرشخص کے اندریہ جاننے کی تڑپ سی ہے کہ آخر ابوالفیض معینی ہیں کون ؟آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ ابوالفیض معینی کون ہے ۔مولانا اسیدالحق محمد عاصم القادری کا یہ جملہ سنتے ہی اشرفیہ کے سیکڑوں طلبہ پرمشتمل اس مجلس پر یکلخت سنّاٹا چھایا گیا اورسب ہمہ تن گوش ہوکر ان کی جانب متوجہ ہوگئے ۔


 اس دن میں پہلی بارمولانا اسیدالحق محمد عاصم القادری کو ماتھے کی آنکھوںسے دیکھ رہاتھا۔ایک شکیل وجہیہ نوجوان شروانی میں ملبوس ،آنکھوں پر عینک اورسرپراونچی مخملی ٹوپی ان ہی کو زیب دی رہی تھی۔انہوں نے ایک منجھے ہوئے اینکرکی طرح طلبہ کے اندرتجسس کی جوت جگاکراسے آخری وقت تک باقی رکھااورپھراسی تجسس بھرے ماحول میں اپنی باتیں بڑے دل نشیں انداز میں طلبہ کے درمیان رکھ دیں ۔وہ چاہتے تھے کہ طلبہ بے تکلف اوردوستانہ ماحول میں کھل کر اپنی رائے کا اظہارکریں اس لئے انہوں نے وہاں تشریف فرمااساتذہ کرام سے گزارش کرتےہوئے کہاکہ شایدآپ کی موجودگی میں طلبہ کھل کر اپنی بات نہ کہہ سکیں ۔ مجھے یادنہیں ہے کہ وہاں تشریف فرمااساتذہ نے ان کی درخواست قبول کی یا نہیں لیکن تھوڑی دیرکی گفتگوکے بعدیہ محسوس نہیں ہورہاتھاکہ طلبہ اپنے وقت کےممتازمحقق وناقداوربیدارمغز عالم دین سے روبرہیں۔مولانا اسیدالحق کا پہلا سوال یہ تھاکہ جب جام نورآپ کے ہاتھوںمیں آتا ہے توسب سےپہلے کون ساکالم پڑھتےہیں پھرکون ؛پھرکون؟پہلےکون ساکالم کے جواب پرسبھی طلبہ متفق نظرآئےیعنی خامہ تلاشی ،اس کے بعددیگرسوالات سے متعلق طلبہ کے جوابات بدل گئے یعنی طلبہ نے اپنی افتاد طبیعت کے اعتبارسے کسی نے اداریہ تو کسی نےمباحثہ اورکسی نے شرعی عدالت وغیرہ کواپنا پسندیدہ کالم بتایا ۔اس کے بعدانہوں نے یہ ایک اورسوال داغ دیا جس میں اس دورے کا مقصداصلی پوشیدہ تھا،وہ یہ تھاکہ آپ جام نورمیں کیا تبدیلی چاہتے ہیں ؟ہم آئندہ سال سے اس میں ایک نئے کالم کا آغاز کرنا چاہتے ہیں ؛کس موضوع پرہو،اس میں آپ کی مرضی بھی شامل ہونی چاہئے کیوںکہ جام نورسب سے زیادہ الجامعۃالاشرفیہ میں پڑھاجاتا ہے۔اس پر جتنے منہ اتنی تجاویز سامنے آئیں ۔تجویز پیش کرنے والوںمیں راقم الحروف بھی شامل تھا ۔میری تجویز یہ تھی کہ جام نورمیں امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نعتیہ اشعارکی دلنشیں تشریح وبحث کا ایک کالم شروع کیاجائے۔(میں اس وقت امام احمدرضا کی نعتیہ شاعری اورقرآن کریم ، تلمحیات، اشارات وتعبیرات پرایک مقالہ قلم بند کررہا تھا،میری تجویز کا پس منظریہی مقالہ تھا)۔


تقریباً ڈیرھ دوگھنٹے بعدجب مجلس اختتام کوپہنچی تو طلبہ سوال کرنے لگے کہ حضرت یہ تو بتائیے کہ مولانا ابوالفیض معینی صاحب کون ہیں ؟ اس پرانہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیاکہ میں بھی نہیں جانتاہوں ،یہ توخوشترصاحب ہی بتاسکتے ہیں کیوںکہ یہی جام نورکے ایڈیٹرہیں انہیں ضرورمعلوم ہونی چاہئے اورجب طلبہ خوشترنورانی صاحب کی طرف متوجہ ہوئے توانہوںنے خودکوطلبہ کےسوالات کے درمیان گھرتا دیکھ کر محض یہ کہہ کر دامن چھڑانے کی کوشش کی کہ وہ کوئی بھی ہوسکتے ہیں ؟اس جواب سے طلبہ کو مطمئن کرنا آسان نہیں تھا۔ خوشترنورانی صاحب کی مددکرتے ہوئے مولانا اسیدالحق صاحب نے کہاکہ مان لیجئے مولانا ابوالفیض معینی میں ہوں،یا خوشترصاحب ہی ابوالفیض معینی ہیں۔ اگرآپ چاہیں تودونوںکے اشتراک کوابوالفیض معینی تسلیم کرسکتے ہیں۔طلبہ سوالات کی مزیدبوچھارکرنا ہی چاہتے تھے کہ دونوں حضرات نے وہاں سےنکل لیناہی بہترسمجھا،ظاہرسی بات تھی ابوالفیض معینی خودکوظاہرکرنانہیں چاہ رہے تھے لہذاتجاہل عارفانہ کام لینا ان کی مجبوری تھی۔

جام نورکے خامہ تلاش ابوالفیض معینی کی علمی ،تحقیقی ،ادبی شعور،زبان وبیان پر گہری گرفت اوروسعت مطالعہ نے ہندوپاک کے اہل علم ودانش کو ذہنی طورپرمضطرب کررکھا تھا،علمی پسماندگی کے دورمیں ایک اچھی خاصی علمی سنجیدگی کا حامل شخص بھی آسانی کے ساتھ یہ ماننے کیلئے تیارنہیں تھاکہ تحقیق وتنقیدکا یہ شاہکار نمونہ محض ایک شخص کی تین چارگھنٹے کی محنت کاثمرہ ہوسکتا ہے۔

دیگرقارئین کی طرح میرا بھی پسندیدہ کالم خامہ تلاشی تھاکیوںکہ میں اس کوایک آئینہ سمجھ کر خامہ تلاش کے ذریعہ دوسروںکی خامیو ں کے درپردہ اپنی اصلاح کا کاسامان مہیا کرتا تھا۔ان کے ذریعہ استعمال کردہ برمحل محاورے ،اشعاراورقرآن مقدس کی آیات کو اپنی تحریروںمیں استعمال کرکے مشق لوح وقلم کا سلسلہ جاری کررکھاتھا۔ان کے برمحل جملے اس طرح مقبول ہوتے تھے کہ وہ زبان زدہوجایاکرتے تھے حالاںکہ ایسا نہیں تھاکہ ان کے استعمال کردہ محاورے ،جملے واشعارانہیں کے تخلیق کردہ ہوتے تھے لیکن ان کے برمحل استعمال سے ایسا لگتا تھاکہ ان محاوروںاورجملوںکونئی تابندگی مل گئی ہو؛اورابھی ابھی کسی نے انہیں پردہ گمنامی خفا سےاٹھاکران کی زندگی کوکاغذپر بکھیردیاہوں۔


خامہ تلاشی میں استعمال کردہ تیرونشترکو بھی طلبہ اپنی باہمی گفتگومیں اپنے ساتھیوں پرآزمانے میں تاخیرروانہیں سمجھتے تھےبلکہ خامہ تلاش کی تقلید میں الجامعۃ الاشرفیہ سے نکلنے والے کئی جداریوںمیں کالم بھی شروع ہوگئے تھے اورکالم نگار علامہ ابن الوقت رومی (ہفتہ روزہ جہان نما)اوراسی نوعیت کے مجہول ا شخاص ہواکرتے تھے ۔

اس وقت الجامعہ الاشرفیہ میں میرےایک رفیق کا تنقیدی جوبن ابھارپرتھا،وہ ہاسٹل کی دیواروں پرچسپاں ہونے والے جداریوںکا تنقیدی مطالعہ فرماتے اوراگلے ہفتہ اپنا جداریہ بھرپورتنقیدی شعلہ سامانیو ںکے ساتھ چسپاں کردیتے ۔باتیں ان کی اٹل ہواکرتی تھیں مگر غیرسنجیدہ اورکھردرے اسلوب کے سبب ان کے قلم کی زدمیں آنے والے ننھے قلم کارکا حوصلہ پست ساہوجاتا تھااورکبھی کبھی جواب درجواب کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا۔کئی بارایسا بھی ہواکہ اس کی درازی ذاتیات تک پہنچ گئی ؛اس سےقبل کے ہاتھا پائی کی نوبت آتی فریقین کے کچھ سنجیدہ احباب دونوںصاحبان کو غصہ تھوک دینے پر آمادہ کرلیتے ۔ابھی مصالحت کا ایک ہفتہ بھی نہیں گزراہواتاتھاکہ پھران کا جداریہ چسپاں ہوجاتا جس میں کسی نہ کسی کی خبرلے لی گئی ہوتی ۔ان کی تنقیدکے ذریعہ پیداہونے والے نرم گرم ماحول کا سلسلہ شایدان کے قیام اشرفیہ تک درازرہتا لیکن بھلاہوابوالفیض معینی کاکہ انہوںنے اس سلسلہ کو اس خوبی سے بندکروایاکہ وہ ایک عرصہ تک تنقید’لفظ‘ کے نام ہی چڑھتے رہے ۔

ہوایوںکہ ایک بارخامہ تلاش نے اپنے کسی کالم میں ماہنامہ جام  نورکےمعاون مدیرذیشان احمد مصباحی پرکرم فرمائی کی ؛اس میں انہوںنے ان کے مضمون کے ایک پیراگراف کی تعریف کرتے ہوئے اس انداز میں اس کی خامی کواجاگرکیاتھاکہ ’ایک جگہ مولانا(ذیشان مصباحی) لکھتے ہیں ’وہ عینک جوآج ہماری نگاہوں کوبے نوربنا رکھی ہے ‘‘یہ جملہ پڑھ کر ایسا لگاکہ دہلی کی لذیذبریانی کھاتے کھاتے اچانک کوئی کنکرمنھ میں آگیا ہوں‘۔میرے رفیق جودل سے بہت اچھے انسان تھے اورہیں ؛ان کاہوش تنقیدجوش میں آیا وہ ابوالفیض معینی کواپنی تنقیدکا نشانہ بناڈالےاورلکھ مارا کہ معینی صاحب کاجملہ پڑھ کر ایسا لگاکہ حیدرآبادکی لذیذبریانی کھاتے کھاتے اچانک کوئی کنکری منہ میں آگئی ہوں۔یعنی انہوںنے ابوالفیض معینی جیسے ناقدکی تحریرمیں تذکیروثانیت کی معمولی خامی کو اجاگر کرکے بڑا کارنامہ انجام دیدیاتھا۔


جام نورکے اگلے شمارہ کے آنے تک اپنی چھاتی پھلاکر چلتے دکھائی دئیےاورطلبہ بھی ان کی بے باکی کی داددیتے نظرآئے لیکن جام نورکا اگلا شمارہ کیا آیا گویا ان کی شامت آگئی اوران کے ضرب قلم کی چوٹ سے تلملائےافراد کوجیسے تیز دھاراسلحہ ہاتھ آگیا؛کل تلک ان سے آنکھیں چراکرچلنے والے ان کی زیارت پرمصرنظرآنے لگے جبکہ جناب کی حالت یہ تھی وہ روم سے نکلنے پرپابندی سی لگابیٹھےتھے۔ایک دن بعدنماز مغرب احسن العلماڈائننگ ہال میں ان سے ملاقات ہوگئی ۔سلام وکلام کے بعدپوچھاکہ بھائی خیریت تو ہے ؟انہوںنے الحمدللہ کے ساتھ جواب دیا ،اس پرمیں نے کہاکہ لیکن آج کل آپ دکھائی نہیں دےرہے ہیں ؟یہ سن کران کے چہرے پرشرمندگی کی سیاہی دوڑگئی جسے میں تاڑگیا اورجب تک میں کچھ تسلی سے لبریز جملے کہہ کران کی ندامت کودورکرنے کی کوشش کرتا وہ بول پڑے رہبرصاحب !نظرتوآہی رہا ہوں ہاں !اگر آپ بھی کسی بات کا احساس کرانا چاہتے ہیں تویہ الگ بات ہے ۔ان کے اس اعتراف حقیقت کے بعدمجھے لگاکہ میںنے انہیں ٹھیس پہنچادیاہےحالاںکہ میں ابتداسے ہی اس کا قائل نہیں رہاکیوںکہ دل کا آبگینہ بہت نازک ہوتا ہے جوہلکی سی ٹھیس کوبرداشت نہیں کرتا۔اس لئے بلا تاخیرطلب معذرت کے بعدان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تنقیدی سلسلہ کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا اوروہ آج بھی اپنا تنقیدی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں فرق اتنا ہے پہلے طلبہ کی لفظی وفنی فروگزاشت پران کا دل کڑھتا تھااوراب جماعتی اختلاف اورملی چیرہ دستیوں کے خلاف کاان کا اسپ قلم دوڑتاہے ۔اللہ کرے ان کا قلمی سفراسی تیز گامی کے ساتھ جاری رہے ۔


ابوالفیض معینی نے میرے رفیق کا تنقیدی خط پڑھ کرلکھاتھاکہ’’ خطوط کے کالم میں جناب محمد فلاں (دانستہ طورپرنام ظاہرکرنے سے گریز کیاجارہاہے)کا خط پڑھا اس کرم فرمائی پرہم ان کے شکرگزار ہیں اوران کے ’مخاطبہ ‘ کا جواب دینے کی بجائے ’قالواسلاما‘پر عمل کرنا زیادہ سمجھتے ہیں ‘(قالواسلاما اس آیت کریمہ کا ایک ٹکڑا ہے ’واذاخاطبھم الجاھلون قالواسلاما‘ یعنی جب جاہل تم سے مخاطب ہوںتوکہو تم پر سلامتی ہو)بظاہریہ سادہ ساجواب تھا لیکن اس سادگی کے اندرایسی کاٹ تھی کہ کوئی بھی شخص دردسےتلملااٹھتا۔اگرمیرے رفیق شدت دردسےکراہ اٹھے تو اس میں حیرت کوئی بات نہیںہونی چاےئےتھی لیکن طلبہ کی افتادطبع کے آگے کس کی چلتی ہے۔طلبہ اس جملہ کولے اڑے اور باہمی گفتگومیں کبھی ضدی دوست کو زیرکرنے اورکبھی اپنی شکست کوچھپانے کیلئے بطورہتھیار استعمال کرنےلگے ۔ویسے خامہ تلاش کے کئی برجستہ جملے اورمحاورے مقبول عام وخاص رہے جن کویادکرکےآج بھی طبیعت محظوظ ہوتی ہے لیکن خامہ تلاش کی جدائی کے تصورسےآنکھیں خشک بھی نہ رہ پاتیں۔


میری ان سے باضابطہ پہلی اورآخری ملاقات پٹنہ میں ہوئی ۔ بات ۲۰۱۲ء کی ہے جب میں ایک روزنامہ کاایڈیٹوریل انچارج تھا۔میرے ایک شاعردوست نے بتایاکہ خانقاہ مجیبہ سے آرہاہوں،وہاں ایک صاحب بتارہے تھے کہ مولانا اسیدالحق قادری اپنے دوست خوشترنورانی کے ہمراہ خانقاہ آئے تھے ۔میں نے کہاکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں حضرات ابھی پٹنہ کے دورے پر ہیں ۔میرے لئے ان سے تفصیلی ملاقات اورگفتگوکا اس سے بہتر موقع نہیں ہوسکتا تھا ۔میں نے ان سے موبائل پر رابطہ کرنے کی کوشش لیکن متعددرِنگ ہونے کے باوجود انہوںنے رسیو نہیں کیا تو میں نے ایس ایم ایس کیاکہ سنا ہے کہ آپ پٹنہ میں ہیں اورخانقاہ مجیبیہ میں تشریف فرماہیں ،ناچیز ملاقات کا آرزومندہے۔ان کا جواب آیا ہاں میں پٹنہ خانقاہ منعمیہ میں تھا اوراب میں مالدہ کیلئے روانہ ہوچکا ہوں۔چوںکہ ان کا موبائل رومنگ میں تھا ا س لئے ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی گفتگوہورہی تھی ۔میں نے پھر ایس ایم ایس کیا کہ حضرت میں آپ کی ملاقات سے محروم رہ گیا جبکہ میرے لئے یہ بہت بہتر موقع تھا ۔ان کا جواب آیا کہ واپسی پٹنہ سے ہی ہوگی ،رات کو ہم لوگ پٹنہ پہنچ جائیں گے اورعلی الصبح وہاں سے میری ٹرین ہے؛ اگر آپ اتنی صبح اسٹیشن پہنچ سکتے ہیں تو ملاقات ہوجائے گی ۔اتفاق سے وہ دن سرکاری چھٹی کا تھا ۔صبح ہی مولانا مجاہدحسین مصباحی کے ساتھ اسٹیشن پہنچ گیا ۔سلطان گنج سے اسٹیشن اوران کے ہوٹل پہنچنے تک تقریباً درجن بھر ان کے کال آئے ،کہاں پہنچے ؟اب کتنی دیرہوگی؟وقت بہت کم رہ گیا ہے؟اتنے بجے گاڑی ہے وغیرہ وغیرہ ۔جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے تھے وہ ذرااندرتھا جہاں پہنچنے میں تاخیرہوگئی ۔وہ مولانا خوشترنورانی صاحب کو ہوٹل کے معاملات نپٹنے کی ذمہ داری دے کرہوٹل کے سامنے سڑک پرکھڑے ہوکرمیرا انتظارکررہے تھے ۔ان کو دیکھ کر ایسا لگاکہ جیساکہ میں نہیں ؛وہی مجھ سے ملنے کا اشتیاق رکھتے ہیں ۔ان کا یہ بڑا پن دیکھ کرمیرے دل میں ان کی عظمت گھر کرگئی ۔سلام کرنے میں پہل کرتے ہوئے پوچھا رہبرصاحب آپ ہیں ؟چوںکہ یہ میری پہلی ملاقات تھی اورمیرے ساتھ مولانا مجاہدحسین مصباحی صاحب بھی تھے ۔اتنے میں خوشترصاحب بیگ لیے ہوئے ہوٹل سے برآمد ہوئے اورہم لوگ پٹنہ اسٹیشن کی جانب چل پڑے ،اسٹیشن پر ڈاکٹر حسیب الرحمن صاحب (خدابخش اورینٹل لائبریری،پٹنہ ) موجودتھے ۔اس سفرمیں بمشکل دس پندرہ منٹ ہی گفتگو کرنے کا موقع مل سکا۔ ہماری گفتگوکا موضوع اپنی اوران دونوں کی تحریری سرگرمیوںسے متعلق تھا۔ گفتگومیں معلوم ہواکہ مولانا اسیدالحق صاحب ’خیرآبادیات‘ پراورمولاناخوشترنورانی صاحب سرسیدپرکام کررہے ہیں ،یہی میری پہلی اورآخری ملاقات تھی ۔


اللہ نےانہیں علم وتحقیق کی دولت کے ساتھ ساتھ اخلاق محمدی اوروسیع الظرفی کی دولت سے خوب خوب سے نواز تھا۔میں نے کئی باران سے مختلف موضوعات پر مواد کی فراہمی کے سلسلے میں اورمضمون کے طریقہ کارپرگفتگوکی، مشورے کیے اورہربار انہیں اس معاملے میں سخی پایا۔
میںنے ایک مرتبہ ایس ایم ایس کیا کہ حضرت تاج الفحول اکیڈمی کی مطبوعات وی پی کے ذریعہ ارسال کردیں۔ان کا ایس ایم ایس آیا رہبرصاحب !پتہ ایس ایم ایس کرددیجئے۔ میرے پتہ ارسال کرنے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد کتابوں ایک بنڈل میرے نام آگیا ۔آفس میںپوچھنے پرمعلوم پڑاکہ ڈاکیہ نے کسی قسم کی رقم کا مطالبہ نہیں کیا ہے ۔میں حیران ہوگیا کہ اب میں روپے انہیں کیسے بھیجواؤں۔میں نے شکریہ کے ساتھ پھرایس ایم ایس کیا کہ حضرت اگر وی پی کے ذریعہ کتاب بھیجواتے تورقم کی ادائیگی میں میرے لیےآسانی ہوتی ،اب بینک اکاؤنٹ ایس ایم ایس کردیں ،ایک دوروز بعدروپے ٹرانسفرکردوںگا ۔ان کا جواب آیا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ صاحب کتاب اورتاج الفحول اکیڈمی کو دعاؤں میں یادرکھیں ۔اس کے بعد تاج الفحول اکیڈمی کی تقریباً ہرکتاب میرے نام آتی رہی ۔جب اعلی حضرت امام احمد رضاقادری فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف ’قصیدتان رائعتان ‘چھپ کرآئی توانہوںنے اس کے ساتھ دیگرنئی کتابیں بھی ارسال کیں اورساتھ ہی قصیدتان رائعتان پر کچھ لکھنے کا حکم بھی دیا حالا ںکہ اس کا اظہار پہلے میں نے ہی کیا تھا ،اس کے بعدکئی بارانہوںنے یاددہانی بھی کرائی لیکن میں یہ سوچ کر خامہ فرسائی کی ہمت نہیں جٹاسکا کہ خامہ تلاش کی تحریرپررائے دینےکی جرأت ’یہ منہ مسوری کی دال ‘پھرسوچتاتھا کہ حکم عدولی نہ ہو اس لئے کچھ آڑی ترچھی لکیر کھینچ کرانہیں کےپاس رنگ بھرنے کیلئے بھیج دوں گا لیکن افسوس صدافسوس میری یہ حسرت ،حسرت ہی رہ گئی ۔


اللہ نے انہیں ایسا دل عطا کیا تھا جو قوم وملت کی فلاح وبہبودکیلئے دھڑکتا تھا ،وہ نئی پود کی قلمی پرورش میں دل وجان سے حصہ لیتے تھے اوران کی لغزشوںکوانداز کرکے اس دلنشیں انداز میں ان کی اصلاح کرتے کہ ان کا حوصلہ پست بھی نہیں ہوتا اوران کے اندرپرورش لوح وقلم کی ایک نئی للک پیدا ہوجاتی ۔جام نورکی ان تحریروں کومیں اپنے دعوے کی دلیل کے طورپرپیش کرسکتا ہوں جن میں انہوں نے جام نورمیں شائع ہونے والے نئے قلم کاروںکی تحریرکوہدف تنقیدبنایاہے۔


ایک بارمیں نے ان سے کہاکہ ماہنامہ اشرفیہ انقلاب ۱۸۵۷ ءنمبرنکالنے جارہا ہے ۔میں نے اپنے لیے’ علامہ فضل حق خیرآبادی اورمرزاغالب‘کا موضوع منتخب کیاہے ۔انہوںنے فرمایا بہت اچھا ہے ساتھ ہی مواد سے متعلق کئی کتابوںکی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ رہبر صاحب !میرے پاس علامہ خیرآبادی کےکچھ مکتوبات ہیں ،میں انہیں آپ کو ای میل کرواتا ہوں ۔جب ان کا میل آیا تو اس میں علامہ فضل خیرآبادی کے علاوہ مفتی صدرالدین آرزدہ کے مکتوبات بھی شامل تھے۔
گاہے بگاہے ان سے فون پر گفتگوکا سلسلہ جاری ہی تھاکہ۴؍مارچ کو جب میں شام کے وقت دفتر کے کام میں مصروف تھا اچانک خانقاہ صمدیہ پھپھوند شریف سے مولانا ساجدرضا مصباحی صاحب کا فون آیااورانہوںنے جوکچھ کہااس نے میرے وجود کوہلاکررکھ دیا ؛کلیجہ دھک سے رہ گیا ۔جلدی سے ان سے سلسلہ کلام منقطع کرکے اس کی اطلاع اپنے ریزیڈنٹ ایڈیٹرجناب احمد جاوید صاحب کو دی ۔اس خبر پروہ دم بخود رہ گئے اوربولے بدایوں والے مولانا اسیدالحق محمد عاصم القادری ؟میں نے کہا خبرتوایسی ہی ملی ہے لیکن وہ تو ابھی بغدادکے دورے پر ہیں ۔میں نے کہاکہ بغدادمیں ہی انہیں دہشت گردوںنے اپنی گولی کا نشانہ بناڈالا اورموقع پرہی ان کی روح پروازکرگئی ۔ آپ خوشتر نورانی صاحب کو فون لگاکرپوچھئے !۔ متعددبارکال کرنے کے بعدبھی ان کا فون رسیونہ کیاجانا اس بات کی گواہی تھی کہ آج امت مسلمہ پرقیات صغریٰ ٹوٹ پڑی ہے۔اس خبرسے میری حالت غیرہوکررہ گئی تھی ایسا لگاکہ غشی آجائےگی ،فوراًپانی پیااورآفس سے باہر نکل کرخودکوسنبھالنے کی کوشش کرنے لگا ۔میری بے چینی دیکھ کرمیرے ساتھی اورانقلاب کے سب ایڈیٹرارشادعالم کہنے لگے کیا ہوابھائی! جنات کا اثرتونہیں ہوگیا؟ انہیں کیا پتہ تھاکہ ایک علمی سرپرست کی جدائی نے مجھے مرغ بسمل بنادیا ہے۔دیررات تک میرے پاس سیکڑوں فون آتے رہے،ایسا لگ رہا تھاکہ جیسا کہ میراخونی رشتے کا بھائی ساتھ چھوڑگیاہواوراحباب تعزیت کیلئے فون کررہے ہوں۔ان فون کرنے والوںمیں اکثریت ایسے احباب کی تھی جو چندلفظوںکے تبادلہ کے بعددھاریں مارکررونے لگتے ۔رات کو تقریباًگیارہ بجے ڈاکٹر نوشادچشتی صاحب کا فون آیا : رہبرکچھ معلوم ہوا ہے ؟ میں نے کہاکہ جی ،لیکن رہبر یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ،مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ،یہ توبڑا حادثہ ہے اورکوئی ثانی نظرنہیں آرہا ہے۔ پھر ان کی آواز بیٹھنے لگی اوررونے لگے اورکہتے رہے رہبر یقین نہیں آرہا ہے ۔ایسا لگ رہا ہے ابھی کہیں سے خبرآجائےگی کہ نہیں ان کے وصال کی خبر جھوٹی ہے ،یاان کا فون آجائے گاکہ میں صحیح سلامت ہوں۔ان سے گفتگوکاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے اپنے جذبات پر قابوپانا مشکل ہورہاتھا۔پھرہم دونوںنے قدرت کی مرضی کہہ کر ایک دوسرے کوتسلی دی اورعلامہ قادری کی مغفرت اور بلندی درجات کیلئے دعائیں کیں ۔ڈاکٹرچشتی صاحب نے کہاکہ رہبرمیں نے فیس بک لکھاہے کہ ہرسال ۴؍مارچ کویوم دہشت گردی مخالف کے طورپرمنایاجائے یہی ان کی بارگاہ میں سچی خراج عقیدت ہوگی۔کیوںکہ انہوںنے جہادکے نام پرجاری دہشت گردی کے خلاف قلمی جہاد بھی کیا ہے اورباضابطہ ایک کتاب تصنیف کی ہے ۔وہ مزیدبات کرنا چاہتے تھے لیکن میری زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔اب ایک ماہ ہونے کوہےمیں آج تک اس صدمہ اہرنکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہوں۔ہرہفتہ انقلاب میں شائع ہونے والا کالم ’امروزوفردا‘بھی مسلسل دوہفتے تک قلم بندنہیں کرسکا۔میں آج تک اس بات کو سمجھنےسے قاصرہوںکہ علامہ اسیدالحق قادری علیہ الرحمہ کے احباب ان کے غم جدائی میں رونے کیلئے میراہی کاندھاکیوں تلاش کررہے تھے ۔میں نے آج تک ایسی مقناطیسی شخصیت نہیں دیکھی ہے جن کے انتقال پران سے دورکا تعلق رکھنے والا انسان بھی دھاریں مارمارکررورہاہو۔دوسرے دن بوجھل قدموںکے ساتھ دفترپہنچا اورخاموشی کے اپنے کام میں مشغول ہوکر اپنے چہرے کی خشکی چھپانے میں مصروف تھا ۔اسی درمیان احمد جاویدصاحب کے موبائل پر کسی کا فون آیا ۔دوران گفتگووہ آب دیدہ ہوگئے ،فون رکھنے کے بعدوہ مجھے مخاطب کررہے تھے لیکن مجھے لگاکہ اگر میں نے ان کی جانب سراٹھایاتوان کی پلکو ںپرٹھہرے آنسورک نہیں پائیںگے اورنہ ہی میں خودکوروک پائوںگا پھرنگاہ چھپاکردیکھاتو وہ دونوںہاتھوںسے انکھوں کومسل کرآنسوؤںکوچھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے ۔ان کے وصال کے تقریباً ۱۵؍دن بعداحمد جاوید دفتر آتے ہی کہنے لگے رہبر !مولانا اسیدالحق صاحب پرمضمون لکھ لیا ؟میں نے کہاکہ سرشروع تو کردیا ہے،تکمیل میں ایک دوروز وقت لگےلگا ۔پھروہ اپنا مضمون سنانے لگے ،دوچارپیرگراف کے بعدوہ بے حدجذباتی ہوگئے اورپھرانہوںنے یہ کہہ کرکہ آگے اقتباس ہے آنسوںکوچھلکنے سے بچالیا۔
مجھے نہیں معلوم ان کےو صال کے بعدان کے احباب کی یہ حالت کس وجہ سے تھی ،ان کی خاندانی پس منظر ،علمی وتحقیقی مزاج ،وسیع الظرفی یا کچھ اورلیکن کچھ بھی ہو ایسی مقناطیسی شخصیت کی مثال عنقا ہےاوریہ ان کی خدادادمقبولیت تھی جوان کے وصال کے بعدبھی باقی رہے گی ۔
مولانا اسیدالحق قادری ،ابوالفیض معینی کی حیثیت سے جب خامہ تلاشی کا آخری کالم تحریرکیاتھا تو اس کا عنوان ’ساغرکومیرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں ‘باندھاتھا اسی لئے ان کے سفرآخری سے متعلق اپنے قلبی وارادت کورقم کرتے ہوئے اپنے مضمون کا سرنامہ اسی مصرعہ کو بنانا زیادہ مناسب لگا ۔


انہوںنے خامہ تلاشی کے آخری کالم میں قارئین جن لفطوں میں اجازت مانگی تھی اس کا ایک ایک حرف دل کو چھونے والا ہے۔عارضی جدائی میں لکھے گئے ان جملوں کو جب ان کی دائمی فراق کے پس منظرمیں دیکھتاہوں تو آنکھیں بھرآتی ہیں ،اس کا ایک حرف آئینہ بن جاتا ہے جس میں ان کی موہنی تصویریںجھلملاتی پھرتی ہیں۔


انہوںنے خود کوخانہ بدوش سے تعبیر کرتے ہوئے کہاتھاکہ اب شاید کبھی آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو،آپ سمجھ لیں ایک خانہ بدوش تھا جو کسی نامعلوم مقام سے آپ کی بستی میں وارد ہوا ،کچھ دن آپ کے ساتھ گزارے اورجب دل بھر گیا تو اپنا سامان اٹھاکر کسی نامعلوم مقام کی طرف کوچ کرگیا ۔ خانہ بدوش تو خانہ بدوش ہوتا ہے ،اس کی شناخت اورمعرفت کوئی معتبرحوالہ نہیں ہوتا ۔اب خامہ تلاش جام نور کے صفحات پرتوموجودنہیں ہوگا مگر قارئین جام نور کے دلوںمیں ،ذہنوں میں ،تذکروں میں ،تبصروں میں اور ان کے احساسات وخیالات میں ایک طویل عرصے تک اس کی یادیں اس کوزندہ رکھیں گی ۔جب جام نورآپ کے مطالعے کی میز پرہوگا توآپ کو خامہ تلاش کی یاد آئے گی ،جب خوشترکی تحریر میں کسی جگہ آپ کی نگاہ رک جائے گی تو آپ خامہ تلاش کو یاد کریں گے ،جب ذیشان صاحب کے قلم سے تذکیروتانیث کی کوئی فروگزاشت ہوگی تو آپ کے اندرکا خامہ تلاش فوراً پکار اٹھے گا ،جب کوئی ازہری کسی تحریر کا علمی محاسبہ کرے گا یا کوئی بغدادی کسی پربے جاتنقیدکرے گا توآپ کو خامہ تلاش کی شدت سے یادآئے گی ۔جب منظومات کے کالم میںکسی عروضی ،فنی یا لسانی عیوب پر آپ کی نظرٹھہرجائےگی تو خامہ تلاش کوآپ اپنے پاس پائیں گے ،جب کسی مضمون میں علمی یاتاریخی تسامح پرآپ مطلع ہوںگے تو آپ ضرور خامہ تلاش کی کمی محسوس کریں گے مختصریہ کہ 
محتسب کی خیر اونچاہے اسی کے فیض سے 
رند کا ،ساقی کا ،مئے کا اورمئے خانے کا نام 
سچ مچ میرے لئےیہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ واقعی مولانا اسیدالحق خانہ بدوش ہی تھے؟ بدایوںکی ایک عظیم خانقاہ سے ایک ابرکا ٹکڑ اٹھا ،اردگردکے علمی چشموںسے تشنگی نہ بجھگی تو پرواز بھرکر نیل کے ساحل پر جابیٹھا اورجی بھر سیرابی حاصل کی؛ پھرواپس ہوا توہندوستان وپاکستان کی علمی ،تحقیقی اورتنقیدی آکاش پرچھاگیا،جب تک جی چھایارہا ،علم وتحقیق کی نئی نئی داستانیں سناکردنیا کو محوحیرت کرتا رہا ،یہ  سلسلہ توابھی شباب پرہیتھا تبھی ایسالگاکہ ان کاجی بھر گیا اوروہ اچانک شاہ جیلاں کے آغوش میں روپوش ہوگیا یعنی


زمانہ بڑے غورسے سن رہا تھا
تم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے 

اگر ایک جگہ مستقل قیام نہ کرنے والے کوخانہ بدوشکہاجاتا ہے توواقعی مولانا اسیدالحق قادری علیہ الرحمہ خانہ بدوش ہی تھے ۔

اس مختصرعرصے میں انہوںنے علم وتحقیق کے اتنے گہرے نقوش چھوڑے ؛جنہیں صدیوںیادرکھاجائےگا،ہرلمحہ ان کی یادایک نئی تابندگی حاصل کرتے رہے گی۔ خوشترنورانی اورذیشان مصباحی کی تحریروںمیں درآئی خامیو ںپران کی یادآئے یانہ آئے ،کسی ازہری یابغدادی کی لن ترانیوں پر ان کی کمی تڑپائے یانہ تڑپائے ،عروضی ،فنی ولسانی عیوب اورتاریخی تسامح پر بھلے ان کی جدائی نہ ستائے لیکن جب کبھی علمی وتحقیق میں معیارکی سنجیدہ گفتگو ہوگی اس وقت ان کی کمی ضرورخون کے آنسورولائے گی ،جب کبھی جماعتی سطح پر مذہبی تنقیدکے حوالے معتبرحوالہ کی جستجوہوگی اس وقت ان کی یادشدت سے تڑپائے گی ،جب کبھی کوئی عربی النسل اعلی حضرت امام احمدرضا قادری فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عربی قصیدہ گوئی پر حرف زنی کرے گا اس وقت صالح تجزیاتی خبرگیری کیلئے ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی ،جب کبھی جام نورمیں امام اہل سنت کی شان میں غیرموزوںلفظوںکا استعمال کیاجائے گا اس وقت خوشترنورانی کوڈانٹ پلانے والے کی شکل میں ان کی کمی ضرورکھٹکے گی ،جب کبھی شعروشاعری میں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زمین میں کامیاب پیروکاروںکوتلاش کیاجائےگااس وقت ان کی جدائی بہت تڑپائےگی اورجب کبھی کسی علمی خانقاہ کی الماریوںمیں بزرگوںکی علمی نگارشات کو کیڑے کی نذرہوتاہوادیکھیں گے اس وقت ان کی جدائی سے دل تڑپ کربے ساختہ اٹھ کرپکاراٹھےگا

لوح وقلم کیا علم کا دریااداس ہے 
تم روٹھ کے گئے کیا زمانہ اداس ہے

(مضمون نگا رروزنامہ انقلاب پٹنہ کے سب ایڈیٹرہیں)
9470738111


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1378