donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Lo Ham Ne Rakh Diya Hai Kaleja Nikal Ke

لو ہم نے رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے


حفیظ نعمانی

 

اپنی بات لکھ کر دوسروں تک پہونچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ماہنامہ رسالہ، ہفتہ وار اخبار، سہ روزہ اخبار یا روزنامہ۔ ہمارے والد ماجد نے پچاس برس ماہنامہ الفرقان کے ذریعہ اپنی بات کہی۔ کئی برس برادر محترم مولانا عتیق الرحمن صاحب نے اسی ماہنامہ کے ذریعہ اپنی شناخت بنائی۔ پھر دو سال انہوں نے ہفت روزہ ندائے ملت کے ذریعہ اپنی بات کہی۔ میری کہانی یہ ہے کہ ندائے ملت کے چھ سال کو چھوڑکر ہمیشہ روزنامہ کو وسیلہ بنایا۔ اپنے بڑوں کو دیکھا کہ وہ لکھنے سے پہلے کئی دن سوچتے تھے اور لکھتے بھی تھے تو کئی دن تک تھوڑا تھوڑا لکھتے تھے اس لئے کہ ماہنامہ اور ہفت روزہ میں اتنی مہلت مل جاتی ہے۔ روزنامہ اخبار کے لئے لکھنے والوں کی دشواری یہ ہے کہ وہ قلم اٹھاتے ہیں اور لکھنا شروع کردیتے ہیں۔

میں گذشتہ دس سال سے ٹانگ کی معذوری کی بنا پر اخبار کے دفتر نہیں جاپاتا ہوں جو غریب خانہ سے پانچ کلومیٹر دور ہے اور اپنی بعض کمزوریوں کی بنا پر دن میں لکھ کر بھیج دیتا ہوں وہاں اسے ٹائپ کیا جاتا ہے اس کی پروف ریڈنگ ہوتی ہے پھر چھپ کر آپ کے پاس جاپاتا ہے۔ مجھے اس کا اعتراف ہے کہ بعض باتیں قلم سے ایسی نکل جاتی ہیں جن کے کئی مطلب نکالے جاسکتے ہیں۔ ایسے کسی موقع پر میں نے کج بحثی نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جو کوئی مجھے پڑھتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور اگر کسی بات کی طرف توجہ دلاتا ہے تو وہ میرا مخلص ہے۔ چار دن پہلے میں نے پرسنل لاء بورڈ کے بارے میں لکھا تھا کہ اب بزرگوں کو سرپرست بنا دیا جائے اور ذمہ داری ایسے ساتھیوں کے کاندھے پر رکھ دی جائے جو ’’اچھی شروعات کو گہرائی سے دیکھ لیں اور ظفر سریش والا کی قیادت میں بننے والے کسی سرکاری مسلم بورڈ کی توپوں کا استقامت کے ساتھ سامنا کرسکیں۔ میں نے پرسنل لاء بورڈ والے مضمون میں لال جی ٹنڈن کا ایک جملہ نقل کیا تھا وہ لفظ بہ لفظ اُن کا ہی جملہ تھا۔ اس مضمون پر مختلف مقامات سے کئی ٹیلیفون آئے۔ ہر جگہ اس کی تائید کی گئی اور تعریف۔ دو تین جگہ اس جملہ کو اس لئے نہیں سمجھا گیا کہ اس کا پس منظر کسی کو معلوم نہیں تھا؟ یہ بارہ برس یا اس سے بھی پہلے کا واقعہ ہے۔ اٹل جی وقت لے کر حضرت مولانا علی میاں سے ملنے دارالعلوم آئے۔ لال جی ٹنڈن ایک حد تک ان کے سیاسی بیٹے تھے وہ لکھنؤ میںہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے۔ مولانا کے پاس آدھا گھنٹہ بیٹھ کر اٹل جی نے اجازت چاہی مولانا نے اپنے مزاج کے مطابق ان کی عزت افزائی کی اور رخصت کردیا۔

اٹل جی کو فوراً ہی دہلی کے لئے روانہ ہونا تھا۔ وہ ایئرپورٹ چلے گئے۔ ٹنڈن ان کے ساتھ تھے۔ ٹنڈن جی جب واپس آئے تو ان کا دربار اسی طرح لگا ہوا تھا ان میں اُن کے اور میرے ایک مشترک دوست ابن حسن ایڈوکیٹ بھی تھے جو اس زمانہ میں بی جے پی سے وابستہ ہوچکے تھے۔ انہوں نے ہی ٹنڈن صاحب سے مسکراکر معلوم کیا کہ کہئے ٹنڈن جی مولانا سے کیا راز و نیاز ہوئے؟ یہ سننا تھا کہ لال جی ٹنڈن لال تو تھے ہی پٹاخہ کی طرح پھٹ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب نے اٹل جی کی بیحد بے عزتی کی۔ وہ کچھ بات کرنے کے لئے گئے تھے۔ مولانا نے بہت تکلف کیا مٹھائی پھل اور خشک میوے کاجو پستے سب لگوادیئے۔ پھر اپنی بات شروع کردی۔ پندرہ منٹ تک جب وہی بولتے رہے تو اٹل جی نے گھڑی دیکھی۔ پانچ منٹ کے بعد پھر دیکھی اس کے بعد ایک دفعہ پھر دیکھی میں اُن کے چہرے کو دیکھ رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ وہ بہت دُکھی ہورہے ہیں۔ اس کے بعد اٹل جی نے اُن سے اجازت لی اور اُٹھ گئے۔ مولانا صاحب نے چلتے چلتے کہا کہ ہم تو سب کو دعا دیتے ہیں کہ اسے ملک کی اور ملک والوں کی خدمت کا موقع ملے تو وہ اُن کی زندگی کو ایسا بنا دے جیسے آزاد ملک کے شہری ہوتے ہیں اور انگریز جو نفرت کے پیڑ بوگئے ہیں انہیں جلاکر راکھ کردے۔

اس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ندوہ میں کتنا آتا ہے اور کتنا دکھایا جاتا ہے؟ میں اگر غیرملکوں سے آنے والی رقموں کے حساب کے لئے چھاپا ڈلوادوں تو…… اٹل جی کے ساتھ ہر وقت اگر ٹنڈن جی رہتے تھے تو مولانا کے ساتھ بھی ہر وقت مولانا رابع صاحب رہتے تھے۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ مولانا رابع صاحب کو دونوں باتیں معلوم ہیں لال جی ٹنڈن کے احساسات بھی اور دارالعلوم کے لئے آنے والے عطیات بھی اور یہ کوئی ندوہ کا ہی مسئلہ نہیں ہے کوئی بھی ایسا مدرسہ جسے عرب، یوروپ اور جنوبی افریقہ میں جانا جاتا ہے اور اس کی خدمت کا اعتراف کیا جاتا ہے وہ ایسے عطیات سے فیضیاب ہوتا ہے جن کا باطن ہی ہوتا ہے ظاہر نہیں ہوتا۔

ایک مدرسہ میں حدیث کا درس دینے والے مدرّس سے ایک بہت دیندار اور فرمانبردار شاگرد نے عرض کیا کہ حضرت میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ آپ کی انگلیوں سے شہد اور دودھ ٹپک رہا ہے اور ہم سب اس کو پی رہے ہیں۔ استاذ کے چہرے پر رونق آگئی۔ فرمایا کہ ہم جو پڑھاتے ہیں وہ دودھ اور شہد ہی سے۔ اس نے ادب سے عرض کیا کہ اور یہ بھی دیکھا کہ ہمارے ہاتھ کی انگلیوں سے غلاظت ٹپک رہی ہے وہ آپ پی رہے ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی راوی ہیں کہ استاذ نے اس لڑکے کو بری طرح مارا۔ پھر اپنے شیخ سے عرض کیا کہ جس لڑکے نے یہ خواب سنایا مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ انتہائی محنتی سیدھا اور مؤدب لڑکا ہے۔ ان کے شیخ نے کہا کہ اس نے کیا غلط دیکھا؟ تم جو پڑھا رہے ہو وہ دودھ شہد ہے لیکن جو لوگ بند لفافہ تمہیں دے کر جاتے ہیں کیا تم نے کبھی معلوم کیا ہے کہ یہ حرام کی کمائی ہے یا حلال کی؟ اس رقم کی تم نے زکوٰۃ اور ٹیکس دے دیا ہے یا یہ کالا روپیہ ہے؟ تم تو مسکراکر رکھ لیتے ہو اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے ثواب مل گیا۔ خود میں نے (حفیظ نے) ایک مدرسہ کو ایک رقم دی۔ دینے والے کا نام پتہ لکھا اور جب ملک کا نام بتلایا تو مولانا نے فرمایا کہ میں یہ نہیں لکھوں گا۔ معرفت حفیظ نعمانی لکھ دوں گا۔ وہ ایک چھوٹا سا رفاہی ادارہ ہے اور واقعی بہت اچھا کام کررہا ہے۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اب دارالعلوم کے ناظم مولانا رابع صاحب ہیں اور حکومت ٹنڈن جی کی ہے۔ اب اگر کوئی مسلمانوں کی حمایت میں حکومت کے مقابلہ پر آتا ہے تو اسے اپنے چاروں طرف دیکھنا پڑے گا۔ کتنے وقت ہمیں تو یہ غلط فہمی تھی کہ ہم مولانا رابع صاحب کو آنے والی آزمائش سے بچا رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ مقابلہ پر آئیں گے تو ٹنڈن کے جملے اُن کے دماغ میں گونجیں گے اور وہی کہیں گے جو جے پور میں کہہ چکے ہیں تو مسلمان اطاعت اور بغاوت کی کشمکش میںمبتلا ہوجائیں گے۔ صداقت پر شبہ ہو تو ‘ٹنڈن جی بھی زندہ ہیں ابن حسن بھی اور حفیظ نعمانی بھی۔

ایک صاحب کو اس کی تکلیف ہوئی کہ ہم نے مولانا کلب صادق کا نام کیوں لے لیا۔ ہمیں اعتراف ہے کہ دستور ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اگر اس میں لکھا ہے کہ صدر ہمیشہ مسلمان ہوگا اور حنفی مسلک کا ہوگا۔ تو ہم معافی مانگ لیں گے ورنہ مسئلہ عیدین کی اور جمعہ کی نماز کی امامت کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے پرسنل لاء بورڈ اور بابری مسجد جیسے مسائل کا ہے۔ تو اس میں جب مولانا کلب صادق صاحب نائب صدر بن سکتے ہیں تو صدر کیوں نہیں بن سکتے؟ بورڈ کے ارکان میں کون ہے جسے یہ معلوم نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح تھے۔ اور ان کی قیادت میں مولانا شبیر احمد عثمانی، علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا ظفر احمد تھانوی تھے۔ جناح کیا تھے؟ اس کو چھوڑیئے ان کی بیٹی اور نواسے بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہمارے نانا کی جائیداد کی تقسیم اسلامی شریعت کے اعتبار سے نہ کی جائے۔ ہم مسلمان نہیں ہیں بوہرے خوجے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے جناح صاحب یا فاطمہ جناح کا کوئی بیان نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کیا تھے؟ ان کی بیٹی اگر اپنے شوہر کی وجہ سے پارسی ہوگئی ہوتی تو ان کی شریعت کے حساب سے اپنا حق مانگتی۔

آج بورڈ میں نہ کوئی مولانا شبیر احمد عثمانی جیسا ہے نہ علامہ جیسا اور نہ تھانوی جیسا پھر اگر ہم نے لکھ دیا تو وہ کیوں کس کو اتنا گراں گذرا؟ اور یہ کون نہیں جانتا کہ بورڈ کے عمومی اجلاس میں جیسی تقریر مولانا کلب صادق صاحب کی ہوتی ہے اور ہوتی تھی وہ دوسرے کے منھ سے نہیں سنی۔ یہ بات ہمارے خون میں ہے کہ جو بات اپنے نزدیک حق ہوتی ہے اسے لکھتے وقت نہ یہ دیکھو کہ وہ بھائی ہے یا اپنا دوست ہے یا رشتہ دار یا وہ کس منصب پر ہے؟ بلکہ وہ لکھو جس کا جواب دنیا میں بھی دے سکو اور میدان حشر میں بھی۔ بورڈ میں ایسے کئی حضرات ہیں جن سے ہمارا تعلق مولانا کلب صادق صاحب سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ہم نے جو تین نام لکھے تھے وہ اپنے نزدیک کی بات تھی۔ اب جو کچھ لکھا ہے وہ صرف وضاحت ہے کہ ہم نے جو لکھا وہ کیوں لکھا تھا؟ اس کے بعد بھی کسی کا ذہن صاف نہ ہو تو وہ ہمیں کم علم اور اناڑی سمجھ کر معاف کردے اور ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مولانا اس ذمہ داری کو قبول بھی کریں گے یا اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے معذرت کرلیں گے؟

(یو این این)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 969