Sarshar Siddiqui
اُردو کے ممتاز شاعر و ادیب
سرشار صدیقی کراچی میں رِحلت کر گئے
ممبئی9ستمبر (ندیم صدیقی)کراچی سے ملنے والی اطلاع کے مطابق مشہور شاعر و ادیب88 سالہ سرشار صدیقی گزشتہ اتوار(7ستمبر) کو کراچی کے ایک پرائیوٹ ہسپتال میں سرطان کے سبب انتقال کر گئے۔
سرشار صدیقی کے والد اولادحسین کا تعلق معظم آباد ضلع اناؤ سے تھا ۔ مگر سرشار صدیقی 1926 کوکانپور میں پیدا ہوئے تھے۔ سرشار صدیقی نے کانپور ہی کے ایک مشہور درس گاہ حلیم مسلم انٹر کالج سے۱۹۴۴ میں انٹر میڈیٹ کیا۔
سرشار صدیقی1949 میں پاکستان ہجرت کر گئے اور نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازمت کی۔ سرشار صدیقی کی اوّلین تخلیق اُس وقت کے ممتاز جریدے نیاز فتح پوری کے پرچے ’نگار‘ میں شائع ہو ئی تھی اس کے چند برس بعد اُن کی پہلی کتاب ’ارتقا‘ کے نام سے طبع ہوئی جبکہ ان کی دیگر تصانیف کے نام اس طرح ہیں: پتھر کی لکیر(1962) ابجد(1983) اور تیسری کتاب بے نام بھی 1983میں منظر عام پر آئی جبکہ ان کی آخری کتاب’ خزاں کی آخری شام‘1988 میں چھپی تھی۔ 1984 میں سرشار صدیقی نے عمرہ کیا اور اس کے بعد ان کی شاعر ی میں مذہبی رنگ واضح طور پر محسوس کیا گیا۔سرشار صدیقی کے پسماندگان میں بیوہ کے ساتھ ایک بیٹا ہے۔
سرشار صدیقی کا یہ شعر اس وقت یاد آتا ہے:
ترکِ وطن تو سنت بھی تھی اور ہماری قسمت بھی
ہجرت پر مجبور نہیں تھے، ہجرت پر مامور تھے ہم
|