Hamida Moin Rizvi
حمیدہ معین رضوی آگرہ میں پیدا ہوئیں تعلیم و تربیت سیالکوٹ میں حاصل کی ۱۹۶۸ میں شادی کے بعد سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انکا پیدائیشی نا م بنت القمر حمیدہ رضوی اور قلمی نام حمیدہ رضوی تھا، شادی کے بعد حمید ہ معین رضوی ۔ ہو گیا
انھیں بچپن سے ہی ادبی مطالعے کا گہرا شوق تھا۔ اپنے والدصاحب کی حوصلہ افزائی سے ادبی مضامین لکھنا شروع کردیا تھا۔
انھوں نے بچوں کے رسالوں سے مذاحیہ کہانیاں لکھنی شروع کیں ۔کھلونا اور پھول علم و ادب یہ نام یاد ہیں کچھ مقامی اخبار وغیرہ تب تک وہ فرضی نام سے لکھتی تھیں۔
۱ حمیدہ معین رضوی کا پہلا افسانہ ۱۹۵۶۔۵۷ ۱۹ کے دوران علم و ادب میں چھپا جب وہ بارہ تیرہ سال کی تھیں اور آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھیں۔کبھی کبھی شاید تعلیم و تربیت بھی میں
۲ انکا پہلا تنقیدی مضمون ۱۹۶۰ اقبال اور اشتراکیت۔۔۔ کالج میگزین افق میں چھپا ،
۳ پہلا افسانہ جو ادبی رسالے لیل ونہارمیں ان کے اپنے نام ( حمیدہ رضوی )سے شائیع ہوا اس کے بعد سے ۔ ادبی دنیا ۔ ادِ ب لطیف ۔فنون ۔۔اوراق ۔۔سیپ ۔افکار اور نقوش میں لکھ رہی ہیں اور بہت کم عمری سے ِ انھیں صاحبِ طرز ادیب کہا جانے لگا۔ہے۔انکی پہلی غزل کسی ادبی رسالے میںامیں ۱۹۶۵دبِ لطیف میں چھپی ۔اس سے قبل ۱۹۵۹ سے لالج میگزین ’’افق ‘‘ میں چھپی
۴۔۔۔ انکے افسانوں کی پانچ کتابیںچھپ چکی ہین جن کے نام یہ ہیں،۔۱۔۔ مردہ لمحوں کے زندہ صنم ۲ فن کی دہلیز۳۔۔ اجلی زمین میلا آسما ن ۔۔ ۴ ۔اور بے سورج بستی ۵ داستا در داستاں ۴ تنقید تخلیقی تبقید کا دوسرا حصہ جنوری ۱۷ تک چھپ جائے گا۔ و ہ شاعربھی ہیں ا ن کی شاعری کی تین کتابین شیش نگر ۔طاقِ آرزو کے دئے ۔ اور غمِ شکستگی کو مجموعے کی صورت چھاپا گیا ہے جس کا نام ڈھلتی شام کے سائے ہیں پاکستان اور ہندستان کے ادبی حلقوں میں خصوصا انکی اپنی انفرا دی فکر کی گہرائی اوراسلامی فلسفے کی وجہ خصوصی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ان کے فن پہ اسلام آباد یونی ورسٹی کی ایک طالبہ ایم۔ فل کر رہی ہے نگران منور ہاشمی ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم رشید تعبان نے ، انکی ادبی خصاصیات پہ ایم فل ۲۰۱۱ میں مکمل کر لی ہی ۔ نگران خالد کریم صاحب تھے ۔
۵۔۔ نقاد کی حیشیت سے بھی انھیں اعتبار حا صل ہو چکا ہے انکی تنقیدی اصول پہ پہلی کتاب تخلیقی تنقید چھپ کر آگئی بقول مامون ایمن نیو یارک ’’تنقید کی کتاب نے ادبی دنیا میں انکا قد بہت بڑا دیا ہے جبکہ عبد ﷲجاوید (تورینٹو کینیڈا ) کا خیال ہے ۔ حمیدہ معین رضوی ہمہ جہت ادیب ہی نہیں کچھ اس سے بہت آگے بڑھ گئی ہیں ۔ ان کا مطالعہ عمیق اور فکر میں وسعت ہے۔منشا یاد کا خیال ہے انکے افسانے قاری کے اوپر سحر طاری کر دیتے ہیں ، اور ایسا ہی خیال اوراق کے مدیر وزیر آغا نے اس خط میں کیا جو جو حمیدہ کو لکھا۔ یہ تبصرہ افسانہ ’ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ‘ پہ کیا تھا جب انھیں یہ افسانہ چھپنے لے لئے بھیجا گیا جبکہ ندیم قاسمی انکے افسانے پڑھ کر بے پناہ مسرت محسوس کر تے ۔اور انکے افسانے شوق سے چھاپتے ۔ایک بار لندن یونیورسٹی کے مشاعرے میں حمیدہ نے قاسمی صاحب کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا تھا، تو میرسامنے انھوں نے فرمایا’’ آپکی غزل بہت پسند آئی حیرتناک خوشی ہوئی۔ بیس برس میں آپ بہت آگے بڑھ گئی ہیں حالانکہ میں نے آپ کو پدرانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ افسا نوں
پہ خصوصی توجہ دیں ۔ میں داد دیتا ہوں ۔آپکی ن ارتقا کی ۔
آٹھویں کے امتحان کے ساتھ ساتھ انھوں نے درج ِ ذیل امتحان پاس کیا۔جس نے انکی علمیت میں مہمیز لگا دی ۔
Profeciency in ُعرساین Language and Literature as a private student Persaian,
بعد میں انھوں نے گورنمنٹ کالج برائے خوا تین جو اب و یمن یونیور سٹی ہے وہاں سے ضلؑ میں چوتھی پوزیشن لے کر بی اے کیا، پھر مرے کالج سے ا نگریزی ادب میں ایم ،اے کیا پھر پرائیویٹ پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم ۔اے کیا،
حمیدہ رضوی نے برطانیہ آکر لندن یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری لی ۱۹۷۶ اسکے بعدپھر یوتھ ورککا ڈپلوما
۱۹۸۶ میں لیا۔اور انگلش پڑھانے کا ڈپلوما ۱۹۹۶ میں لیا
۱۹۸۶ DIPLOMA in COUNSELLING لیا اور
تدریس انکا میدان رہا۔ وہ six formکالج میں ESOL اور اے لیویل اردو پڑھا تی رہی ہیں۔انھوں نے کوثر علی کی معاونت سے Gold Smith یونیورسٹی ا ایک پراجکٹ پہ وزیٹنگ لیکچرر کی حیثیت میں اردو تدریس کے لئے سلیبس تیار کیا ہے جوابتدا سے لے کراٹھارہ سال تک کے بچوں کی تدریس میں معاون ہوگا بلکہ ان دونوں یونیورسٹیوں کا خیال ہے کہ ان تمام علاقوں میں یہ سیلیبس کام آئے گا جہاں جہاں انگریزی بولنے والے بچے اردو سیکھنا چاہتے ہیں مثلاّّ جنوبی افریقہ، کینیا،
مراشس، امریکہ وغیرہ نکے میں بھی کام آسکتا ہے۔
بچے اردو بولتے سمجھتے اور لکھ لیتے ہیں۔
نھوں نے پہسٹ گراجوئیٹ
DIPLOMA in COUNSELLING
میں بھی لیا ہے
اعزازی او رضاکارانہ کام
سرکاری تنیظیم Racial Equqlity Council
کے لئے پانچ برسExecutive member کی حیثیت سے کام کیا صحت کی خرابی کی وجہ سے استعفا دیا،
2 School council for religious Education ۱۹۹۰ سے اب تک کام کر رہی ہیںس کاوئنسل کو بچوں کے لئے اسلامیات کا سلیبس بنا نے میں مشورہ۔ اور مدد دیتی ہیں۔
established in 1988,89 was
Interfaith Forum Fo r Kingston. وہ تب سے اسکی منبر ہیںاسکا مقصد ،مختلف مذاہب
کے درمیان مکالمہ، گفتگو اور میل جول پیدا کرنا ہے تاکہ اس ملک میں رہنے والے تعصب سے دور رہ کر امن سے زندگی گزاریں انھیں اسلامی معلومات اور اس معاملے میں کار کردگی کی بناء پہ منتخب کیا گیا ہے۔ وہ اسکولوں میں جاکر اسلام پہ لیکچراور مکالمہ کرتی ہیں۔
کنگسٹن مسلیم ویمنز ویلفئیر اسسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری ہیں اور انھیں نے ہی یہ ایسسو سی ایشن ۱۹۸۷ میں قائم کی تھی اسکے منشور کی پہلی شق ایک اردو اسکول کا قیام تھا،تین سا ل کی جدوجہد کے بعدیہ اسکول قئائم ہو سکا جو اب تک ْقائم ہے۔اور وہ ہی یہ اسکول چلا رہی ہیں ۔بہت سے بچوں نے بنیادی دینیات اور ارد ۔ اولیول کا امتحان پاس کیا ہے۔یہ اسکول صرف اتوار کو ہوتا ہے چار گھنٹوں کے لئے۔ ان کے علاوہ تین اور خواتین اساتذہ ہیں۔
د س برس قبل پارلیمینٹ نے کمیونیٹی کے رضاکارانہ ا مور سر انجام دینے کے انعام میں OBEکے لئے فارم بھیجا تھا ابھی تک ضمیر سے سمجھوتہ نہیں کر سکیں۔کہ یہ انعام انھیں لینا چاہئے یا نہیں۔اور فارم بھر کر بھیجں یا رہنے دیں
انکے تین بیٹے ہیں،ایک میڈیکل کنسلٹینٹ ہے۔ ایک پی۔آر مینیجر ہے زیادہ تر گھر سے کام کرتاہے اور تیسر ا ڈینٹسٹ Dentistry پاس کرکے نوکری کرتا ہے س سے قبل Biomedical science کی ڈگری بھی لی ہے۔تینوں کی شا دیاںہو چکی ہیں بڑی بہو عظمیّ سید ڈاکٹر ہے ۔چھو ٹے بیٹے سلطان محمد سید کی بیوی نے بھی B.D.Sکیا ہے اچھی مسلمان ہے اور اپنی خوشی سے برقعہ پہنتی ہے بیٹے سلطان محمد سید نے BDS College London Kings سے کیا ہے، سے میری یہ بہو کشمیر ی ہے اور انکا کنبہ مغربی لندن میں آباد ہے ۔پہلے یہ لوگ باہر شادیاں نہیں کرتے تھے
مگر اب ۔۔۔۔۔ بس اچھا دیندار ہونا ہی شرط ہے ۔ پہلی دونوں بہویں بھائی کی بیٹیاں ہیں بڑے بھائی کی بیٹی نے ایسا رویہ دکھایا ۔کہ وہ بد دل ہوگئیں ’’ ذات وغیر سے اچھا انسان نہیں بنتا دین اصل حقیقت دین ہے جس کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں ۔‘‘ بچے اب یہ کہتے ہیںاور وہ بھی یہی کہتی ہیں
مشا غل اور مصروفیات
باغبانی۔۔ رضاکارانہ کام۔اسلام پہ لیکچرز دینا اپنے علاقے کی بہت سہ تنظیموں میں مسلمانوں کی نمائیدگی کرتی ہوںمثلاّّ: نسلی امتیاز کے خلاف کام کرنے والی
سرکاری تنظیم کے لئے پانچ برسExecutive member کی حیثیت سے کام کیا صحت کی خرابی کی وجہ سے استعفا دیا،
2 School council for religious Education ۱۹۹۰ سے اب تک کام کر رہی ہیں اس کاوئنسل کو بچوں کے لئے اسلامیات کا سلیبس بنا نے میں مشورہ۔ اور مدد دیتی ہوں۔
established in 200 was For KIingstn Interfaith Forum میں تب سے اسکی منبر ہوںاسکا مقصد ،مختلف مذاہب
کے درمیان مکالمہ، گفتگو اور میل جول پیدا کرنا ہے تاکہ اس ملک میں رہنے والے تعصب سے دور رہ کر امن سے رہیں انھیںاسلامی معلومات اور اس معاملے میں کار کردگی کی بناء پہ منتخب کیا گیا ہے۔وہ اسکولوں میں جاکر اسلام پہ لیکچراور مکالمہ کرتی ہوں۔
۳
وہ کنگسٹن مسلیم ویمنز ویلفئیر اسسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری ہیں انھوں نے ہی یہ ایسسو سی ایشن ۱۹۸۷ میں قائم کی تھی اور ا اس کا منشور بھی انھیں نے لکھا منشور کی کی پہلی شق ایک اردو اسکول کا قیام تھا،تین سا ل کی جدوجہد کے بعدیہ اسکول قئائم ہو سکا جو اب تک ْقائم ہے۔اور وہ ہی اسکول چلا رہی ہیں ۔بہت سے بچوں نے بنیادی دینیات اور ارد ۔ اولیول کا امتحان پاس کیا
ہے۔یہ اسکول صرف اتوار کو ہوتا ہے چار گھنٹوں کے لئے۔ انکے علاوہ تین اور خواتین اساتذہیں۔
عمارت کرائے پہ لی جاتی ہے اور کرایہ حکومت دیتی ہے۔اساتزہ کی تنخواہ چندوں اورمعمولی فیس سے دی جاتی ہے۔ اتنظامی امور رضاکارانہ اد کرتی ہوں بہت صبر آزما کام لوگوں کومسلسل یہ بتانا ہے کہ بخدا اردو کا تاریک مستقبل سامنے ہے اسکو بچانے کے لئے اسکو پڑھئے اور پڑھائے۔۔مگر نتیجہ انتہائی حوصلہ شکن ہے بچوں کو تجوید قرآن بھی پڑھا یا کہ شاید لوگ بچے بھیجیں مسلمان قوم اس قدر گہرائی میں گر جانے کی شوقین ہے کہ عبرت ہوتی ہے ۔نتیجہ ڈھاک کے تین پات،۔
۔درج، ذیل چند انعامات جو گورنمنٹ کالج فور ویمن سیالکو ٹ پنجاب کی طرف سے ۱۹۴۳میں دیا گیاعلاو ہ پڑھائی میں دس انعامات جیتنے کے
(۱)۔گرنمنٹ کالج سیالکوٹ کی،بہترین قرائتِ قران پہ کالج Colourاور سند
(۲) بہتریں مقرر۔ کا طلائی طمغہ(۳) بہترین مضمون نگارکا اول انعام
(۴)بہترین شاعرہ کا انعام۔
(۵) بین لکلیاتی مقابلے میں پہلا انعام اور قایدَ اعظم طلائی طمغہ ۔اس کے علاوہ بھی کورس کے مضامین میں اول آنے پہ کئی انعامات۔ اردو بزمِ ادب اور دیبیٹینگ سوسائیٹی کی صدارت کا انعام۔
آل پاکستان ( مشرقی پاکستان بھی مقابلہ میں تھا ) شامل ہو ئیں اور دوسرا انعام لیا
Talentad teen agers . میں ان کا انٹر ویو بھی چھپا تھا۔ انگریزی رسالے۔
Mirror میں انٹر ویو بھی چھپا۔
درج َ ذیل اعزاذت جو ایم۔ اے انگریزی کرتے ہوئے مرے کالج سیالکوٹ کی طرف سے دیئے گئے۔انعامات
(۱)بہتریں مضمون نگار۔کا انعام سالَ اول
(۲)کالج میگزین، اردو میں سب سے اچھا افسانہ۔ کا انعام پہلے سال
(۳)بہتریں مقررکی ٹرافی۔پہلے سال
(۴) ا نٹر یونیورسٹی ڈبیٹ میں اول آنے کا انعام لڑکوں لڑکیوں دونوں میں۔دوسرے سال
(۵)مدیرہَ اردو کی ایدٹر بننے کے لئے مقابلے میں اول آنے کا انعام۔دوسرے سال
(۶)سوسال کی کالج کی تاریخ میں پہلی خاتون مدیرہ ہونے کا انعام۔ دوسرے سالسد سالہ
تققریب پہ طلائی ٹرافی
(۷)تحریر و تقریردونوں میں بہترین کار کردگی پہ طلائی طمغہ۔
مسلم نیوز کی طرف سے Award of Excellence.
اAward of Exellence from Lterary Magazine Rowzan.
A trophey by Harf ,.o Sawot ,Pindi
مشغلہ ۔۔ خواتین کے درس اور تفسیر قرآن کا سلسلہ جاری ہے ۔رضاکارانہ اردو اسکول ابھی چل رہا ہے
************************
|