donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Bismil Azimabadi
Poet/Writer
--: Biography of Bismil Azimabadi :--

 

 بسملؔ عظیم آبادی کے حالاتِ زندگی 
 
بسملؔ عظیم آبادی کا اصل نام سید شاہ محمد حسن، عرف چھبو ، تخلص بسملؔتھا۔ وہ خسرو پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی سنہ پیدائش میں اختلافات پایا جاتا ہے۔ کسی نے ان کا سال پیدائش 1900 بتایا ہے تو کسی نے 1902 ء جب کہ بسملؔ اپنی مختصر خود نوشست میں ( جسے سید محمد علی نے ’’ یاران میکدہ‘‘ میں شائع کیا) لکھتے ہیں کہ وہ 1901 ء میں پیدا ہوئے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
 
’’ پٹنہ کے ایک خوشحال اور مقتدر خاندان میں تقدیر نے پیدا کیا اور سالِ پیدائش بیسویں صدی کا پہلا سال تھا۔ میں صرف ایک سال تھا کہ 1902 ء میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔‘‘
 
بسمل عظیم آبادی کا تعلق اعلیٰ اور معتبر خاندان سے ہے۔ بسملؔ کے ایک بھتیجے سید شاہ نظیر احسن سید شاہ خلیل الرحمن وفاؔ کو دیا۔ اس میں ان کا سلسلہ نسب حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔ وہ شجرہ نسب اس طرح ہے(۱) حضرت علیؓ(۲)حضرت امام حسینؓ(۳) حضرت امام زین الدینؒ(۴) حضرت امام باقرؓ(۵) حضرت امام صادقؓ( ۶) حضرت امام موسیٰ کاظم(۷) حضرت امام علی رضا(۸)حضرت امام محمد تقی جواد(۹) حضرت امام علی ہادی نقی(۱۰) حضرت سید ابو عبد اللہ جعفر(۱۱) سید علی اصغر(۱۲) سید عبد اللہ (۱۳) سید احمد بخاری(۱۴) سید علی بخاری(۱۵) سید حسن بخاری(۱۶)سید عبد اللہ بخاری(۱۷)خواجہ سید علی بخاری (۱۸)سید محمد بخاری(برادرِ سید احمد بخاری)والد سید نظام الدین محبوب الٰہی(۱۹) سید جمال الدین بخاری ( مرزا بھونگر، اورنگ آباد، دکن)(۲۰) سید ابراہیم چشتی( مزار چاند پورہ بہار) (۲۱) مخدوم سید محمد الدین چشتی طویل بخش( مزار)چاند پورہ ، بہار شریف(۲۲) مخدوم سید شاہ معین الدین چشتی(۲۳) سید شاہ سلطان بزرگ (۲۴) سید شاہ مظفر چشتی(۲۵)سید شاہ منصور چشتی(۲۶) سید شاہ محبوب چشتی(۲۷) سید شاہ مسعود چشتی (۲۸) سید شاہ امیر اللہ چشتی(۲۹) سید شاہ احسان اللہ چشتی (۳۰) سید شاہ محمد بخش چشتی(۳۱) سید شاہ محمد سلطان چشتی(۳۲) سید شاہ محمد اسماعیل چشتی (۲۰ سے ۳۲ تک سبھی کے مزارات چاند پورہ میں ہیں) (۳۳) سید شاہ علی حسن (۳۴) سید شاہ آل حسن (۳۶) سید شاہ محمد حسن عرف شاہ چھبو۔
 
 بسملؔ عظیم آبادی کے والد محترم سید شاہ آل حسن بیرسٹر تھے۔ بیرسٹر کی سند انہوں نے انگلستان سے صرف 21 سال کی عمر میں حاصل کر لی تھی۔ 1894 ء میں پٹنہ واپس آئے ۔ انہوں نے پٹنہ ( عظیم آباد) میں بیرسٹر ی کی پریکٹس شروع کردی لیکن ا فسوس کی بات یہ ہے کہ صرف آٹھ سال پریکٹس کرنے کے بعد ۳۱؍ جنوری 1902 میں اس جہان فانی کو خیر آباد کہا۔ وہ صفی پور پٹنہ میں مدفون کئے گئے۔ انہوں نے تین بیٹے یاد گار چھوڑے۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام شاہ ولی حسن تھا۔جو چودہ سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ ان سے چھوٹے یعنی منجھلے لڑکے شاہ نبی حسن( عرف نبو ) جو صرف28  سال میں وفات پا گئے۔ سب سے چھوٹے بیٹے سید شاہ محمد حسن ( عرف شاہ چھبو) تھے جو بسمل عظیم آبادی کے نام سے مشہور ہوئے۔
 
بسملؔ صرف ایک سال کے تھے کہ ان کے  والد نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس وقت ان کی والدہ پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ تینوں بھائیوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا تو تینوں بھائی اپنے نانا سید شاہ مبارک کاکوی اورماموں سید شاہ محی الدین کے زیر نگرانی آگئے۔ اور ان کی پرورش و پرداخت ان کے حقیقی نانا شاہ مبارک کاکوی اور مامو شاہ محی الدین نے کی۔ بسملؔکی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ بسمل کا بچپن کچھ وقت اپنے دادیہال خسرو پور اور کچھ اپنے نانیہال عظیم آباد میں گذرا۔ بسمل کو اچھی سے اچھی تربیت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وہ خود بھی پرہیز گار اور نیک خاتون تھی۔ اپنی والدہ کے علاوہ بسمل اپنے دادا اور اپنے نانا کے زیر نگرانی تعلیم پاتے رہے۔بسملؔ کے نانا اپنے نواسوں سے بڑی ہمدردی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے نواسوں کے لئے ایک معلم معین الدین کو رکھ لیا۔ بسملؔ نے ابتدائی عربی، فارسی اور اردو کی تعلیم معین الدین کے ذریعہ حاصل کی۔ بزرگوں کی یہ دلی خواہش ہوئی کہ اردو، فارسی اور عربی کے علاوہ انگریزی کی تعلیم بھی ضروری ہے۔ غالباً دس سال کی عمر میں وہ اپنے منجھلے بھائی کے ساتھ کلکتہ پہنچے۔ وہاں ان دونوں کا داخلہ ایک اسکول میں ہوا جہاں انگریزی کی اچھی تعلیم دی جا تی تھی۔ بسمل کے والد سید شاہ آل حسن مرحوم کے ایک قریبی رشتہ دار سید شاہ سلطان احمد خسرو پوری اس وقت کلکتہ کے ویٹنری کالج میں پروفیسر تھے۔ بعد میں پرنسپل ہوئے اور ڈائریکٹر ہو کر انتقال کیا۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے دوران دونوں بھائی ڈاکٹر سلطان احمد کے پاس رہے۔ اور ان کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کی۔ پانچ سال تک تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد والدہ ماجدہ نے اپنے بیٹوں کو گھر واپس بلا لیا۔ چوں کہ بڑے بھائی کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ گھر کی ذمہ داری دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ بسمل ؔ کا ساتھ زیادہ دنوں تک ان کے منجھلے بھائی سید شاہ نبی حسن ( نبو) بھی نہ دے سکے۔ ان کی شادی بھی ہوئی لیکن کچھ دنوں بعد وہ بھی لا ولد انتقال کر گئے۔ بسملؔ بالکل تنہا رہ گئے۔ ساری ذمہ داری بسمل کے سر پر آپڑی ۔ لہذا انہوں نے اپنی تعلیم منقطع کر دی۔ خاندانی ذمہ داری کا انتظام اپنے سر لے لیا اور اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ بسملؔ اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
 
   ’’…اب میرے گھر کے تمام کاموں کا انحصار منتظمین اور ملازمین پر رہ گیا بھلا ایسے میں کسی زمیندار گھرانے کے بچے کی کیا تربیت ممکن تھی؟ جو ممکن تھی وہ وہ میرے حصے میں آئی ۔ ہوش مندی کے عناصر کا پیداہوجانا ایک امراتفاقی تھا۔‘‘
 
بسمل عظیم آبادی کے والد محترم کے تین بھائی تھے۔ بسمل کے والدمرحوم سب سے بڑے تھے۔ جن کا نام سید آل حسن تھا منجھلے کا نام سید شاہ مظہر حسن اور چھوٹے کا سید شاہ امیر حسن تھا۔ بسمل کی شادی منجھلے چچا سید شاہ مظہر حسن کی چھوٹی صاحبزادی حسینہ خاتون سے ہوئی۔ بسملؔ کی اولاد میں پانچ بیٹے سید شاہ حسن نسیم، سید شاہ مہدی حسن، سید شاہ اختر حسن، سید شاہ حامد حسن اور سید شاہ جمال حسن اور تین بیٹیاں حمیرہ خاتون ، شمیمہ خاتون اور آمنہ خاتون ہو ئیں۔
 
 سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی نے دنیا میں آنکھیں اس وقت کھولیں جب ہر طرف شعر وشاعری کا ڈنکا بج رہا تھا۔ بھلا ایسے ماحول میں بسمل کو شعر و شاعری کاش وق کیوں کر نہ ہوتا۔دوسری خاص وجہ یہ تھی کہ ان کے نانا سید شاہ حبیب الرحمن مبارک اور ان کے مامو ں خان بہادر سید شاہ محی الدین عرف کمال صرف رئیسوں میںسے نہیں تھے۔ بلکہ اپنی تہذیب، اپنے اخلاق اور اپنے مزاق سخن کے لئے بھی مشہور تھے۔ دونوں کا شمار بزرگ شاعروں میں ہوتا تھا اور دونوں شاعر نواز بھی تھے۔ وہ دوسرے فنون ِ لطیفہ کی بھی قدر کرتے ہو اور اس کی سر پرستی بھی کرتے تھے۔ فن موسیقی میں ماہر تھے۔ اس عہد میں مشاعروں کی گرم بازاری تھی۔ مشاعروں کی اس محفل میں مولانا وحید الہ آبادی، جناب شاد عظیم آبادی اور اس دور کے دوسرے با کمال شعراء کی شرکت ہوئی اور ان کے حسین و پر اثر نغموں سے پورا عظیم آباد گونج اٹھتا تھا۔ بسمل کے ذہن و دل میں شعر و شاعری سرایت کر گئی تھی۔ کم عمری میں ہی وہ شاعری کرنے لگے تھے۔ بسمل کو شعر و شاعری کا ایسا شوق ہوا کہ انہوں نے بزرگ شعراء کے سینکڑوں اشعار یاد کر لئے۔ گہرا مطالعہ اور با کمال شاعروں کی صحبت نے اس مذاق سخن کو پروان چڑھایا ۔ اس طرح ان کی شاعری میں ندرتِ فکر پیدا ہو گئی۔ ان کی شاعری میں اس دور کے تمام شعراء سے الگ نظر آتی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔
 بسمل عظیم آبادی آبادی ابتداء میں اپنا کلام مبارک عظیم آبادی کو دکھاتے رہے۔ اور ان سے مستفیض ہوتے رہے۔ مبارک عظیم آبادی جانشیں داغ کہے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بسمل کی شاعری میں داغ کا رنگ بھی نظر آتاہے۔ لیکن بعد میں انہوںنے اپنا استاد شاد عظیم آبادی کو منتخب کیا۔ اور ان کی شاگردی اختیار کر لی۔ چوں کہ شاد کی شاعری میں تصوف کے عناصر موجود ہیں۔ اور بسمل ان کے عزیز شاگرد ٹھہرے ایسی صورت میں بسمل ان کا اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ رچ بس گیا۔ بسمل کی شاعری میں صوفیانہ رنگ آنے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ان کو صوفیانہ خیالات و احساسات ورثہ میں ملے تھے۔ بسملؔ کی شاعری میں مبارک عظیم آبادی کا حسین انداز بیان دیکھنے کو ملتا ہے۔
 
بسمل عظیم آبادی شاعر تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔ ان کی شکل سے رعب و دبدبہ صاف جھلکتا تھا۔ بسمل عظیم آبادی کا رنگ گورا اور سر کے بال سیاہ اور گھنے تھے۔ چھوٹی داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ناک پر ایک بڑا مسا تھا جس کا رنگ سرخی مائل کتھئی تھا۔ ان کی ناک کھڑی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ ان کی پیشانی اونچی تھی۔ وہ کپڑوں کے بڑے شوقین تھے۔ سفید ململ کا کرتا اور ململ  ہی کی دو پلی گلف لگی ٹوپی اور خالتہ پاجامہ پہنتے تھے۔ وہ اکثر سیا شیروانی بھی پہنا کرتے تھے۔ شیر وانی کے ساتھ اسی رنگ کی کشتی نما ٹوپی بھی ہوتی تھی۔ پائوں میں پمپ شو پہنتے تھے۔ کہیں باہر جاتے تو ہاتھ میں چھڑی بھی ہوتی تھی۔ پان کھانے اور حقہ پینے کی عادت تھی۔ کھانے میں اچھی ڈش پسند کرتے تھے۔کھانے پینے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ تحت اللفظ میں شعر پڑھتے تھے۔ شعر پڑھنے کا خاص انداز رکھتے تھے۔ادھر ادھر حاضرین پر سوالیہ نگال ڈالتے  جاتے ۔ اکثر شعر کے دو مصرعوں کو ملا کر اس طرح پڑھتے کہ نثر کا گمان ہوتا تھا۔
 
خوشی اور غم زندگی کے دو اہم پہلو ہیں۔ انسانی زندگی میں کبھی خوشی مسکراہٹ بن کر لب تک آجاتی ہے تو کبھی غم آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں۔ یہی صورت حال بسمل عظیم آبادی کے ساتھ رہی۔ کبھی ان پر غم کے پہاڑ ٹوٹے تو کبھی خوشی کی محفل سجی، ایسے حالات نے ان کے مزاج میں غیر معمولی اعتدال پیدا کر دیا تھا۔ ان کی شخصیت میں بذلہ سنجی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں ، بزرگوں اور عزیزوں سبھوں کو اپنی بذلہ سنجی سے محظوظ کرتے رہتے تھے۔ محفل جیسی بھی ہو وہ بازاری اور عامیانہ لفظوں سے پرہیز کرتے تھے۔ ظرافت سے ضرور کام لیتے تھے۔ لیکن اس ظرافت میں کہیں بھی پھوہڑ پن نہیں ہوتا تھا۔ بسمل خوش مزاج واقع ہوئے تھے۔ اپنی زندہ دلی سے دوسروں کو مسرت پہنچاتے تھے۔ بسمل عظیم آبادی کے ایک عزیز دوست سید شاہ جعفر حسین جو ان کے رشتے دار بھی تھے۔ انہوں نے بسمل کے مختصر حالات زندگی پیش کئے ہیں۔ بسمل کی زندہ دلی اور اعتدال پسندی سے متعلق فرماتے ہیں کہ
 
’’ ان کی زندہ دلی تو ایسی تھی کہ دوسروں میں بھی ایک مسرت کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ مگر کسی موقع پر بھی میں نے انہیں قہقے لگا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا وہ صرف اپنے غموں سے نہیں بلکہ دوسروں کے غموں سے بھی اتنے متاثر ہو جاتے تھے کہ انکی صورت پر درد و الم اور ہمدردی کے اثرات صاف نظر آتے تھے۔ مگر جب یاد نہیں آتا کہ بڑے سے بڑے صدمے کے موقع پر انہیں نالہ و شیون کرتے ہوئے پایا ہو۔ آداب مجلس کا انہیں ہر وقت خیال رہتا تھا۔‘‘
 
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ بسمل پر جتنے بھی غم کے پہاڑ ٹوٹے انہوں نے ہمیشہ ضبط سے کام لیا۔ وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے غم میں شریک ہوتے۔ دوسرے کے غم کو اپنا سمجھتے اور اس سے لڑنے کا حوصلہ دیتے۔ دوسروں کی خوشی میں بھی شرکت کرتے اور اس محفل کو اپنی بذلہ سنجی سے زعفران زار بنا دیتے۔
 
بسمل عظیم آبادی انسان دوست تھے۔ انسانوں سے حد درجہ محبت نے انہیں کبھی انسانوں کے درمیان حد بندی اور تفریق کی اجازت نہیں دی۔ وہ ہر کسی کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ ان کے ملنے جلنے والوں میں ہندو، مسلم امیر ، غریب، سبھی شامل تھے۔ وہ اپنی زمینداری اور کاشت کاری کے کام کو بھی بہتر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے مزدوروں اور کاشت کاروں پر ظلم نہیں کیا۔ اور نہ ہی تکلیف پہنچائی بلکہ ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ تمام مزدور اور کاشتکار ان سے خوش رہتے تھے۔ کام کو اچھے طریقے سے کرتے اور انہیں اپنا سرپرست تصور کرتے تھے۔جب بھی کوئی دشواری ہوتی بسمل سے مشورے لیتے ۔ مصیبت پڑنے پر ان سے مدد مانگتے ۔ ایسی صورت میں بسمل ان کی مدد کرتے تھے۔ اسی ہمدردی اور محبت کے جذبے نے انہیں ہومیو پیتھی کا معالج بنا دیا تھا۔ انہوں نے اپنے علم اور تجربے کو انسانی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ دوائیں مفت دیتے ۔ اگر کوئی مریض ان کے پاس نہیں آپاتا تو لوگوں کے کہنے پر اسے دیکھنے گھر جاتے اور دوا دیتے۔ جب تک وہ ہر داس بیگھا میں مقیم رہے، اس کام کو انجام دیتے رہے۔ بسمل کے پاس صبح ہو یا شام مریضوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی۔ بسمل ہر کسی کو دیکھتے ، جانچتے، دوائیں دیتے اور ہدایتیں کرتے ان کی اخلاق مندی کا یہ عالم تھا کہ وہ جب اپنے دوستوں، عزیزوں کے گھر تشریف لے جاتے تو اس گھر کے بچوں بزرگوں سبھی سے صحت کے متعلق دریافت کرتے تھے۔ اور جہاں انہیں یہ محسوس ہوتا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو وہ انہیں داد دیتے اور احتیاط کرنے کو کہتے اور پرہیز کرنے کے لئے ہدایتیں دیا کرتے تھے۔
خسرو پور میں جتنے بھی ادارے تھے سبھی اداروں کے کاموں میں حصہ لیتے اور سبھی سے وابستہ تھے۔ بسمل وہاں کے ادبی جلسوں او رمشاعروں میں پیش پیش رہتے ۔ بسمل کے ذہن و دل میں صوفیانہ رنگ رچ بس گیا تھا۔ انہیں بزرگوں اور صوفیوں سے خاص لگائو تھا۔ وہ بزرگوں کے تمام عرسوں اور محرم کی مجلسوں میں بڑی پابندی سے شریک ہوتے تھے۔
 
بسمل عظیم آبادی کے والد سد شاہ آل حسن مرحوم نے ہر داس بیگھا نامی گائوں میں، جو پٹنہ سے کچھ دوری پر واقع ہے، پر فضا اور اچھی جگہ تلاش کرکے ایک مکان تعمیر کیا تھا۔ اس گائوں میں ان کی زمینداری تھی اور کاشت کاری بھی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی بسمل کے والد مرحوم اپنی چھٹیاں گذارنے ہر داس بیگھا جاتے اور کچھ روزقیام کرتے تھے۔ جب بسمل عظیم آبادی اور ان کے منجھلے بھائی نبی حسن (نبو) کلکتہ سے واپس آگئے تو ان کی والدہ محترمہ اپنے بچوں کے ساتھ ہر داس بیگھا میں رہنے لگیں۔ غالباً ۱۹۴۵ء تک بسمل کا قیام اس گائوں میں رہا۔ ہر داس بیگھا سے انہیں گہرا لگائو ہو گیا تھا۔ انہوں نے ایک مضمون’’ پرندوں کے شوقین‘‘ لکھا تھا۔ جس میں انہوں نے ہر داس بیگھا کی خوبصورت تصویر کشی کی اور انہیں جو پرندے پالنے کا شوق تھا اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ بسمل نے یہ مضمون’’ پرندوں کے شوقین‘‘ پٹنہ ریڈیو والوں کی فرمائش پر تحریر کیا تھا۔ انہوں نے ہر داس بیگھا کی عکاسی خوبصورت انداز سے کی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
(نبو) کلکتہ سے واپس آگئے تو ان کی والدہ محترمہ اپنے بچوں کے ساتھ ہر داس بیگھا میں رہنے لگیں۔ غالباً ۱۹۴۵ء تک بسمل کا قیام اس گائوں میں رہا۔ ہر داس بیگھا سے انہیں گہرا لگائو ہو گیا تھا۔ انہوں نے ایک مضمون’’ پرندوں کے شوقین‘‘ لکھا تھا۔ جس میں انہوں نے ہر داس بیگھا کی خوبصورت تصویر کشی کی اور انہیں جو پرندے پالنے کا شوق تھا اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ بسمل نے یہ مضمون’’ پرندوں کے شوقین‘‘ پٹنہ ریڈیو والوں کی فرمائش پر تحریر کیا تھا۔ انہوں نے ہر داس بیگھا کی عکاسی خوبصورت انداز سے کی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
 
’’ یہاں سے چودہ میل دور شاہِ راہ پر ایک بستی ہر داس بیگھا ہے۔ جہاں کا میں رہنے والا ہوں میرے 
’’ یہاں سے چودہ میل دور شاہِ راہ پر ایک بستی ہر داس بیگھا ہے۔ جہاں کا میں رہنے والا ہوں میرے مکان کے سامنے لہلہاتے کھیت اور کھیتوں سے پرے گنگا بہتی ہے جس میں سر خاب مرغابیوں اور چاہوں کے جھنڈا اترتے ہیں۔ قرقروں اور بطوں کے غول منڈلاتے ہیں۔ ایک طرف آموں کے باغ ہیں جس میں کوئلیں کوکتی اور پپیہے پی کہاں پی کہاں کی کوک بھرتے ہیں۔ مکان کے احاطہ میں درختوں اور بسواری میں مختلف پرندے بسیرا کرتے ہیں۔ صبحیں چڑیوں کی چہچہاہٹ سے شروع ہوتی اور شامیں گھونسلوں کو لوٹتے ہوئے پرندوں کے پروں کے سائے میں چھپ کر ستاروں بھری اوڑھنی میں گم ہو جاتی ہیں۔
 ہم تھے گلشن تھا آشیانہ تھا
 ہائے وہ بھی عجب زمانہ تھا
 
 بسمل کو ہر داس بیگھا میں ہی فطرت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ طویل قیام نے انہیں فطرت کا راز داں بنایا۔ ہر داس بیگھا کی دلکش فضاء دریا کے کنارے لہلہاتے کھیتوں، خوش رنگ اور خوشبو دار پھولوں اور اودی اودی گھٹائوں کے سائے میں زندگی گذارنے میں جو سکون و اطمینان ملتا تھا وہ کہیں اور نہیں مل سکا۔ ایک جگہ انہوں نے اپنے مضمون’’ پرندے کے شوقین‘‘ میں فطرت کی عکاسی بہت ہی دلکش انداز میں ہے۔ ملاحظہ ہو:
 
نقاشِ فطرت نے دنیا کو سجانے کے لئے جہاں بے شمار رنگ و نکہت کے پھول کھلائے ہیں وہاں ان گنت رنگوں اور مختلف سروں اور تانوں میں گانے والے پرندے بھی بنائے ہیں۔ موسمِ بہار میں باغوں میں ناچتے ہوئے مور، دوڑتے ہوئے چکور، سنکی ہوئی ہوائوں ، نیل کنٹھ اور شاخوں پر بیٹھے ہوئے طوطوں کو دیکھئے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے قوسِ قزح ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ اور ان کی بولیوں کو سنئے تو دنیا کے غم بھول جائے۔‘‘
 
بسمل عظیم آبادی کو پرندوں کا بڑا شوق تھا۔ اپنے گھر پر رنگ برنگ کے اور خوش گلو پرندے پال رکھے تھے۔ مختلف قسم کے پرندوں کے متعلق بہت ہی وسیع معلومات بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے مضمون پرندے کے شوقین میں اپنی معلومات کا ذکر بہت ہی دلکش انداز میں کیا ہے۔
اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
 
’’ آدھی رات کا وقت محفل اپنے شباب پر تھی۔ رقص و نقش عروج پر تھا۔ نغمے فضا میں جادو جگا رہے تھے۔ سب ہی جھوم رہے تھے کہ یکا یک ایک بلبل بولا اور بولتا چلا گیا۔ پھر تو سبھی بلبلوں نے ایک ساتھ بولنا شروع کر دیا۔ نغموں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ ایک سماں بندھ گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہر پنجڑے سے سریلی تانوں کا فوراہ چھوٹ رہا ہو۔ رقص جہاں تھا وہیں تھم گیا۔ گھنگرئوں نے چپ سادھ لی۔ گیتوں نے دم توڑ دیا۔ طلبہ دم بخود رہ گیا۔ سارنگی کو سکتہ لگ گیا۔ سارا مجمع بلبلوں کے نغموں میں اس طرح ڈوبا کہ پتہ بھی نہیں چل سکا کہ رات ڈھل چکی ہے جب بلبلوں کا ملکوتی نغمہ تھما تو سارے مجمع پر سکتہ طاری تھا۔ ہر شخص کھویا کھویا ادھ کھلی آنکھ سے ایک دوسرے کا منہ تک رہا تھا۔ اور پلکیں جھپک رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سبھوں نے جاگتے میں کوئی خواب دیکھا ہو اور اب ہوش آیا تو واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعروں سے محفل گونج گئی۔ بلبل والوں کی تعریف ہو رہی تھی۔ شاہ کمال صاحب مرحوم نے میرے چچا زاد بھائی شاہ اقبال صاحب مرحوم کو پکار کے کہا کہ دیکھو تمہارا بلبل گرم ہو گیا ہے۔ اس کو بادام کھلائو نہیں تو کلیجہ پھٹ جائے گا۔ دو روز کے بعد سچ مچ اقبال بھیا مرحوم کے بلبل کا کلیجہ پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔ سبحان اللہ کیا محفلیں تھیں۔ کیا شوقین لوگ تھے۔ اور کیا دانست تھے۔ افسوس!‘‘
بسمل عظیم آبادی کا مکان ان کی دلچسپیوں کے مطابق آراستہ و پیراستہ تھا۔ کمرے میں خوب سے خوب تر مصوری کے نمونے تھے۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ انہیں مصوری سے خاص دلچسپی تھی۔ اور وہ مصوروں کی دل سے قدر کرتے تھے۔ ان کے گھر پر مصور آتے تھے اور بسملؔ کے مطابق مصوری کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ گھر کے باہر والے حصے میں بلبل، طوطی ، شاما، گلدم، آرگن، طوطے، بحری، لال کینری اور دوسرے خوش گلو اور خوش رنگ پرندوں کے پنجڑے مناسب جگہوں پر لٹکے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان پرندوں کے لئے کھانے پینے کا خاص انتظام کر رکھا تھا۔ مکان کے باہر والے حصے میں رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ جب ہوا چلتی تو ان پھولوں کی خوشبو پورے گھر کو معطر 
 
بسمل عظیم آبادی کا مکان ان کی دلچسپیوں کے مطابق آراستہ و پیراستہ تھا۔ کمرے میں خوب سے خوب تر مصوری کے نمونے تھے۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ انہیں مصوری سے خاص دلچسپی تھی۔ اور وہ مصوروں کی دل سے قدر کرتے تھے۔ ان کے گھر پر مصور آتے تھے اور بسملؔ کے مطابق مصوری کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ گھر کے باہر والے حصے میں بلبل، طوطی ، شاما، گلدم، آرگن، طوطے، بحری، لال کینری اور دوسرے خوش گلو اور خوش رنگ پرندوں کے پنجڑے مناسب جگہوں پر لٹکے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان پرندوں کے لئے کھانے پینے کا خاص انتظام کر رکھا تھا۔ مکان کے باہر والے حصے میں رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ جب ہوا چلتی تو ان پھولوں کی خوشبو پورے گھر کو معطر کر دیتی تھی۔ مناسب جگہوں پر درخت لگے ہوئے تھے۔ وہاں دیسی اور بدیسی پھول موجود تھے۔ ہر قسم کے مرغ اور کبوتر پال رکھے تھے۔ بسمل کا مکان ایک چھوٹا سا باغ معلوم ہوتا تھا۔ مکان کی دوسری جانب اصطبل تھا۔ اس میں گھوڑے رہتے تھے۔ انہیں کتے پالنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ انہوں نے مختلف نسل کے کتے پال رکھے تھے اور ان میں سے کچھ کتے گھر کی حفاظت بھی کرتے تھے۔ بسمل نے جانوروں اور پرندوں کی پرورش و پرداخت کے لئے خاص انتظام کر رکھا تھا۔ درختوں کی دیکھ بھال کے لئے بھی انتظام تھا۔ وہ خود بھی درختوں اور پھولوں میں پانی دیتے تھے۔
 
بسملؔ عظیم آبادی جب بھی اپنے گائوں ہر داس بیگھا میں کوئی پروگرام کرتے جلسہ کرتے یا خوشی کا موقع ہوتا تو ان سبھی پروگراموں میں خسرو پور عظیم آباد کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دیتے تھے۔ خسرو پور عظیم آباد کے لوگوں کو جب خبر ہوتی ہر کوئی وہاں حاضر ہوتا تھا۔ بسمل کے گھر پر عورت خاطر تواضع ہوتی تھی۔ مختلف قسم کی ڈش کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ ان کے یہاںہمیشہ دوستوں عزیزوں اور ملاقاتیوں کی ایک بھیڑ جمع رہتی تھیں۔ ایسے ملاقاتی بھی وہاں تشریف لے جاتے جن کو بسمل سے کوئی خاص تعلق نہ تھا۔ لیکن بسمل ان کی بھی خاطر تواضع کرتے تھے۔ مہمان کا آنا باعثِ رحمت سمجھتے تھے۔ کوئی بھی ان کے یہاں آتا بغیر ناشتہ چائے کے جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
 بسمل خسرو پور سے بھی خاص لگائو تھا۔ خسرو پور کے سبھی لوگ بسمل کو چھبو بھائی کے نام سے جانتے تھے۔ وہاں کے لوگ انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عید ہو یا بقرعید ، کسی طرح کا جلسہ ہو ، کوئی تقریب ہو، خوشی کا موقع ہو یا غم کی خبر ہوتے ہی بسمل وہاں حاضر ہو جاتے تھے۔ ایسے بھی خسرو پور میں ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہ بوڑھے جوان، بچے، سبھی سے ملتے ان سے باتیں کرتے ہوتے۔ جب کبھی کوئی تقریب ہوتی تو خسرو پور کے لوگ ان سے مشورہ لیتے تھے۔ وہ انہیں مشوروں سے نوازتے تھے۔ بسمل عظیم آبادی نے ہر داس بیگھا میں کافی سالوں تک قیام کیا۔ اور آخر کار 1945 ء کے شروع میں عظیم آباد اپنے نانیہالی مکان میں سکونت اختیار کر لی۔ 1946 ء میں آزادی تو مل گئی تھی لیکن ہر طرف زہر آلود فسادات نے ملک ہندستان کو تباہ و برباد کر دیا۔ پورے ہندستان میں نفرت کی آگ پوری طرح پھیلی ہوئی تھی۔ ان حالات کا اثر بسمل پر ہوا اور ان کی زندگی کے انداز یکسر بدل گئے۔ جب تک ان کی طبیعت اجازت دیتی رہی وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے گھر ملنے جاتے رہے تھے۔ عظیم آباد کے ادبی حلقوں میں ان کا کافی چرچا تھا۔ عظیم آباد میں جب بھی مشاعرہ منعقد ہوتا اس میں پیش پیش رہتے ۔ اس زمانے میں مشاعرے کو کافی مقبولیت ملی۔ وہ ریڈیو پر بھی اپنی غزلیں پڑھتے اور مضامین سناتے تھے۔
 
 بسمل کی دلچسپیوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ان کا شوق پہلے کی طرح باقی رہا۔ عظیم آباد مکان بھی تصویروں سے آراستہ و پیراستہ رہتا تھا۔ رنگ برنگ کے پھول اپنے چھوٹے سے صحن میں لگا رکھے تھے۔ غیر ملکی کتے بھی پال رکھے تھے۔ اس طرح ان کا شوق آخری عمر تک باقی رہا ۔ 
بسمل عظیم آبادی نے بہت سیا غزلیں لکھیں ۔ لیکن ان کی کچھ غزلیں زمانے کے ہاتھوں برباد ہو گئیں۔ لیکن جو باقی بچیں اسے سید شاہ مہدی حسن اور سید شاہ ہادی حسن نسیم نے مل کر ترتیب دیا اور ان کا مجموعہ کلام’’ حکایت ہستی‘‘بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہو گیا۔ ان کے اس مجموعے میں نعت، غزلیں، رباعیات، قطعات، متفرقات اور ایک نظم شامل ہیں۔ انہوں نے ایک مضمون بھی لکھا تھا جو’’ پرندوں کے شوقین‘‘ کے عنوان سے تھا۔ انہوں نے اس مضمون کو ریڈیو پر بھی پڑھا تھا۔ بسمل کے حالات زندگی میں جا بجا اس مضمون کے اقتباس بھی درج کئے گئے ہیں۔ جس سے ان کی نثری تحریر کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
 بسمل عظیم آبادی کی بڑی بیٹی حمیرہ خاتون کا انتقال ہو گیا۔ اس صدمے کا ان پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ بسمل کافی ٹوٹ چکے تھے۔ ان کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی چلی گئی۔ دوسری طرف ان کی اہلیہ مسلسل علالت کی وجہ سے ان کی پریشانیاں بڑھی ہوئی تھیں۔ ان کا چین و سکون ختم ہو گیا۔ بسمل عظیم آبادی 1976 ء میں فالج میں مبتلا ہو گئے۔ دو برس انہوں نے کسی طرح سے اسی حالت میں گذارے۔ آخر میں دماغی حالت بالکل خراب ہو گئی تھی۔ نہ صحیح طور پر بات چیت کر سکتے تھے نہ کچھ سن سکتے تھے اور نہ ہی کسی کو پہچان سکتے تھے۔ اس حالت میں منگل 20 جون 1978 (بہ مطابق ۱۳؍ رجب ۱۳۹۸ھ) کو ساڑھے چار بجے اپنے آبائی وطن  لودی کٹرہ پٹنہ سیٹی میں ان کی روح پرواز کر گئی۔ نماز جنازہ بعد نماز ظہر پڑھی گئی ۔ اور انہیں ان کی وصیت کے مطابق گائوں کرتھا میں ان کی والدہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ چھ مہینے کے بعد ان کی اہلیہ حسینہ خاتون کا بھی انتقال ہو گیا۔ عظیم آباد کے حالاتِ زندگی کے اختتام کے بعد ان کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔
 
کہاں تمام ہوئی داستانِ بسملؔ کی
بہت سی بات تو کہنے کو رہ گئی اے دوست
 
(بشکریہ: بسمل عظیم آبادی : شخصیت اور فن، تحریر: محمد اقبال)
 
٭٭٭
Real Name – Syed Shah Mohammad Hasan
Pen name – Bismil Azimabadi
Birth and Death - 1901 - 1978
Alias – Shah Jhabbu
Father – Syed Shah Aal Hasan (Barrister at Law)
Grandfather (Paternal) – Syed Shah Hasan
Grandfather (Maternal) – Syed Shah Habeeb ur Rahman (aka Shah Mubarak Kakvi and pen name Mubarak Azeemabadi)
His Paternal ancestors migrated from Chandpura to Khusrupur (Nawada, distt. Patna, Bihar) which is now in Nalanda. From there they further migrated to Patna and settled in the locality of Lodikatra. From his Paternal side his ancestry traces back to Hazrat Makhdum Shah whose tomb is situated in Chandpur, Nalanda.
His maternal ancestry was no less illustrious. They migrated to India from Mashhad Muqaddas (Iran) and after brief stay in various places finally settled in Kako (Distt. Gaya, Bihar), which is now in District Jahanabad in Bihar. His maternal grandfather, Syed Shah Habeeb ur Rahman (aka Shah Mubarak Kakvi), finally settled in Azimabad (Patna)
Waints (talk) 09:42, 29 May 2012 (UTC)Syed Babar Imam, Kashana Kothi, Patna
 
His maternal Grandfather and maternal Uncle (Khan Bahadur Syed Shah Tahiuddin aka Shah Kamaal, pen name Kamaal Azimabadi) were poets of renown and were students of Wahid Allahabadi. Initially education was conducted at home and was later admitted in school. He had completed a few years in school, when elder brother, Shah Nabi Hasan, died childless after a few years of marriage and the whole responsibility of the household fell on his young shoulders, and he could not study any more after school. But the heritage of literature was in his blood and it bloomed on its own accord. The legacy of Mubarak Azimabadi and Kamaal Azimabadi lived on.
As he was raised in an ambience of poetry and literature he was molded in to it automatically since childhood. He had committed to memory several works of contemporary and old masters. The period he lived in was one of the most glorious periods of Azimabad, there was not a single educated house in the city which did not have a poet in its household. Mushaira’s (Poetry narration gatherings) used to be held almost every week with overwhelming attendances. The desire to write couplets and ghazal was strong in Bismil. With that purpose in mind he joined the literary circle of Shaad Azimabadi (another forgotten master). At the time of Shaad’s death Bismil was quite young and yet the spirit of Shaad did not fail to inspire him. When the burden of the household fell on his shoulder after the death of his brother, Bismil had to cut down his indulgence in Urdu Poetry. Wrote less but whatever he wrote was heart warming.
Hum to Bismil hee rahey khair hui Ishq mein jaan chali jaati hai
The hand whose pen wrote these lines, finally departed from this life on 20th day of June in the year 1967.
Kaisey rowey nah marg-e-bismil par AaKhir dil khol kar Azimabad waaley
Sarfaroshi ki Tamanna is a popular ghazal of Bismil though it is incorrectly associated with Ram Prasad Bismil. Both are different personalities. Pandit Ram Prasad was born in UP and had various Takhallus (penname), Bismil, Ram, Agyaat, but never Azimabadi as he had no connection with Azimabad (Patna). Bismil was born in Azimabad and hence the Azimabadi in his takhallus. The fact remains that the said ghazal was composed by Bismil Azimabadi of Bihar and the correction (islaah) was done by his ustaad (teacher) Shaad Azimabadi.
 
 
The real name of Bismil Azimabadi was Syed Shah Mohammad Hasan, aka jhabbu, penname Bismil. He was born in Khusrupur. The year of his birth is unclear as some have stated it as 1900 while others insist on 1902. While Bismil himself, in his sort autobiography (which Mohammad Ali published in his “YaraaN e Maikadah) says:
“Destiny brought me into this world into a happy and fortunate family and t he year of birth was the first year of the 20th Century. I was just 1 year old when, in 1902, my father passed away”
Bismil is associated with a family of social standing and stature. His lineage goes back 33 generations to Hazrat Ali RH. Bismil’s father, Syed Shah Aal Hasan, was a Barrister at Law which he obtained at a young age of 21 in England. He returned to Patna in 1894. He started practicing law in Azimabad, but unfortunately after just 8 years of professional life he passed away on 31 January 1902. He was buried in Safipur in Patna. He was survived by 3 sons. The eldest son was Shah Wali Hasan who passed away at an early age of 14 years. The second son was Shah Nabi Hasan (alias Nabbu) who passed away in his 28th year. The youngest was Syed Shah Mohammad Hasan who was later known as Bismil Azimabadi.
Bismil was just 1 year old when his father passed away and a mountain of grief and anxiety fell upon his mother. The three sons were sent to stay with Maternal Grandfather, Syed Shah Mubarak Kakvi, and Maternal Uncle, Syed Shah Mohiuddin. Their Grandfather and Uncle took the responsibility of bringing them up. The initial education of Bismil was conducted at home as was the norm in those days. Bismil’s childhood was spent in Khusrupur and Azimabad. Bismil’s mother left nothing to chances as far as the upbringing of her sons was concerned. Bismil got further training from his maternal and paternal grandfathers. Syed Shah Mubarak Kakvi had great sympathy for his grandsons who had lost their father at an early age, and appointed a tutor Moinuddin who taught Arabic, Farsi and Urdu to Bismil. The elders thought that apart from conventional languages it was also necessary to learn English. Approximately at the age of 10years he, along with his elder brother Nabi Hasan, reached Calcutta where they were admitted in an English school. A close relative of his late Father, Syed Shah Sultan Ahmad Khusrupuri, was a professor in the Veterinary College (was promoted to Principal and then to Director) was resident in Calcutta and it was with him that the 2 brothers stayed and got education under his guardianship. After this their mother called them back to Patna. Their eldest brother had passed away in early childhood and the responsibilities of the household was increasing with every passing day. Bismil’s elder brother, Syed Shah Nabi Hasan, got married but within a few years of marriage he passed away childless. Bismil was left all alone. The responsibilities of the household fell on his shoulder and he had to cancel his plans for further education and assume his new role as the master of the house. In his words:
“Now the entire working of my household was solely in the hands of managers and staff and in such an environment how is possible to raise a child of a zamindar family? Whatever was possible was accorded me. The sense of responsibility and maturity that came to me was a mere co-incidence.”
Bismil’s father were 3 brothers. Bismil’s father was the eldest, second was Syed Shah Mazhar Hasan and the third was Syed Shah Ameer Hasan. Bismil was married to Haseena Khatoon, the youngest daughter of Syed Shah Mazhar Hasan. Bismil had 5 sons: • Syed Shah Hasan Naseem • Syed Shah Mehdi Hasan • Syed Shah Akhtar Hasan • Syed Shah Hamid Hasan • Syed Shah Jamal Hasan And 3 daughters: • Humaira Khatoon • Shamima Khatoon • Aamna Khatoon
When Bismil came into this world all around him literary revolution was underway. Ghazal and couplets and poets ruled all social gathering. And it would be surprising if Bismil would not have been influenced by such an ambience. And the other great reason was that his maternal grandfather, Syed Shah Habeebur Rahman Mubarak and maternal uncle Syed Shah Mohiuddin Kamaal were not just men of standing and riches but they were also well known for their etiquettes, mannerism and their general rapport with other people in the society. They were also counted among senior poets. They also undertook poets in their wings and took care of their intellectual development. They were huge connoisseurs of art. In this period, mushairas or poetic gatherings were much the norm. In these gatherings Waheed Allahabadi, Shaad Azimabadi, and other heavyweights of the poetic field were regular face and the whole of Azimabad used to echo with their Ghazals. Growing up in these times, Ghazal and Poetry influenced Bismil in a very monumental way. He started writing couplets from a very early age. He was so deeply influenced that he memorized the works of various senior poets. Deep study and the company of talented poets honed Bismil’s talent to a perfection. Bismil developed is own style which was different from all the poets of his time. It had an individuality of its own.
In the beginning, Bismil used to show his Ghazals to Mubarak Azimabadi who used to correct it for him. Mubarak Azimabadi was also known as the torch bearer of Daagh and hence Bismil’s poetry also carried the flavor of Daagh’s poetry. So later, Bismil took Daagh for his teacher and became his favorite pupil. Now, since Daagh’s poetry was greatly influenced by mysticism (Sufism), therefore, the same colors can also be found in Bismil’s poetry.
Bismil Azimabadi was a poet but he was from a Zamindar family and he had a commanding posture. He was fair with a full head of dark hairs. He sported a small beard and there was mole of his nose. He had big eyes, a straight nose and a high forehead. He was fond of clothes and took particular care in dressing. Usually he favored wearing a black sherwani with a black boat-shaped cap on his head, pump shoes on his feet and a walking-stick in hand. He was extremely fond of Paan and Huqqa.
Bismil life was punctuated by spells of sorrows and pain with brief intervals of happiness, which helped shape his psyche. It brought a lightness of spirit in his attitude. His circle of acquaintance used to benefit from his good natured and humorous composure. But he never settled for crudity or wantonness in his humour, no matter how informal the company. A very close friend and relative, Syed Shah Jaafar Hussain, has given a brief introduction of Bismil character. He says: “His lively nature was such that it brings happiness in others, but on no occasion has anyone seen Bismil indulging in loud, boisterous laughter. He was not only affected by his own sorrows, but the sorrows of others also vastly affected him that one could easily witness the pain reflected on his face. But I can’t remember him wailing even when in the worst of disasters. He was ever mindful of the etiquette of the society.”
Bismil also studied Homeopathy and he used to give free medicines to the ailing patients. If someone was not able to come to him for treatment, rich or poor, he used to venture on his own to see him and provide medicines.
Bismil’s Father, in his lifetime, had constructed a beautiful house in beautiful area in Hardaspur Bigha (which is a few kms from Patna). He was a landlord (zamindar) of this village and a lot of cultivation was done on his land. Some times Bismil’s father used to come here for his vacation and stay a few days. When Bismil and his brother returned from Calcutta, their mother took them to live in this house in Hardaspur Bigha. They stayed there till 1945 and he was very attached to Hardaspur Bigha. He wrote an essay titled “ParindoN ke Shauqeen”, in which he has drawn a beautiful and awe-inspiring picture of Hardaspur Bigha.
n Hardaspur Bigha, Bismal came to closely identify with nature. The long stay there made him fall in love with nature and its immense beauty. Spending his days in the heartwarming ambience, flourishing fields on river banks, colorful and aromatic flowers and the swirling clouds gave him immense peace and inner calm which was to be found nowhere else. 
Bismil was also very closely associated with Khusrupur where he was popularly known as Jhabbu Bhai (Brother Jhabbu) and he was greatly respected. He was always present there on any occasion of happiness or mourning and participated in both equally. The people of Khusrupur were very fond of Bismil and used to consult him on important matters. He was popular among all classes, rich or poor, old or young.
In 1947, India was independent but the country was rife with communal tension, riots and random acts of violence. The whole of India was engulfed in the fire that burnt brighter still. This affected Bismil in a very profound way and his demeanor changed in a dramatic way. As long as his health allowed him, he continued to socialize by visiting his friends and relatives, and he remained a popular invitee in all literary sittings in the city. He was always in forefronts in all mushairas in Azimabad.
Bismil's interests remained the same, he was a huge fan or artistry and his whole house was adorned with painting of popular and amateur artists. His bedroom and living room always had fresh flowers and he also had various international breeds of dogs and he was pretty fond of them too.
Bismil wrote extensively, but a majority of his writings have been lost forever. But, Syed Shah Mehdi Hasan and Syed Shah Hadi Hasan, arranged and sequenced the ones that survived and compiled them in a book “Hikayat-e-Hasti” and it was published by Bihar Urdu Academy. Most of his surviving work is available in this book.
 
Bismil’s eldest daughter passed away in his lifetime and this greatly affected him. It broke him down. His health deteriorated with every passing day. His wife on the other hand was ailing since a long time. His mental peace and calm was shattered. In 1976, he was suffered a stroke which paralyzed him. He continued to struggle with life for another 2 years and by then his mental faculties started breaking down. He could neither talk nor listen or understand by then. By this time he had stopped recognizing people. And finally on 20 June 1978 he passed away and according to his will he was buried in the village Kurtha, beside his mother. His wife followed him after 6 months.

 

 
You are Visitor Number : 5473