donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Akhtar Azimabadi
Poet
--: Biography of Akhtar Azimabadi :--

 

 اختر عظیم آبادی 
 
 
 محمد اختر حسین( قلمی نام اختر عظیم آبادی) ولد ماسٹر محمد عظیم الدین مخمور  میٹرک سرٹی فیکٹ کے مطابق ۲ جنوری ۱۹۳۷ء کو پٹنہ سیٹی کے محلہ باغ کالو خان میں پیدا ہوئے۔ ان کے مجموعہ کلام’ آشوب آگہی‘( مطبوعہ ۱۹۸۵ئ) اور دبستان عظیم آباد مطبوعہ(۱۹۸۲ئٌ میں تاریخ پیدائش ۱۹؍ دسمبر ۱۹۳۳ء درج ہے اور یہی درست ہے چوں کہ اسکولوں میں داخلے کے وقت عمر کم کرکے لکھوانے کا رواج کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ اپنے ذہن کے تشکیلی عوامل سے متعلق خود ان کا بیان قابل توجہ ہے۔’’ آشوب آگہی‘‘ میں آئینہ کے تحت لکھتے ہیں:
 
’’ میرے تعلیمی دور میں آبائی مکان پر قریب قریب روزانہ ہی شعر و سخن کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ والد محترم انجمن رفیق الشعراء کے معتمد اعلیٰ کے عہدے سے منسلک تھے۔ اس لئے صدر انجمن ہذا حضرت میر سید حسن صاحب سید عظیم آبادی روزانہ ہی تشریف لاتے تھے۔ اور خالص ادبی گفتگو کیا کرتے تھے۔ بحث و مباحثے ہوتے جس میں ادبی اور تنقیدی پہلو اجاگر ہوتے۔ اسی وجہ سے میرا ذہن لا شعوری طور پر شعر و سخن سے ہمکنارہو گیا۔ میری پرورش سخن طرحی مشاعروں ادبی نشستوں میں باضابطہ شرکت کرنے اور غزل سننے اور پڑھنے سے ہوتی رہی۔ میری حوصلہ افزائی حضرت میر سید حسین عظیم آبادی، حضرت حمید عظیم آبادی اور استاد محترم شفیع حیدر صاحب حیدر عظیم آبادی فرماتے رہے۔ ۱۹۵۱ء ہی سے طرحی مشاعروں میں شرکت کرتا رہا۔
 
اختر نے زیادہ تر غزلیں کہی ہیں اور میرے خیال میں ان کا مجموعہ کلام آشوب آگہی ، اس اعتبار سے اسم با مسمیٰ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں شریک اشاعت بیشتر غزلیں بنیادی طور پہ بنی نوع انساں کے اس مستقل اور مسلسل کرب سے عبارت ہیں جو لا علمی یا گمرہی سے نہیں بلکہ آگہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بات پہ حیرت آمیز مسرت ہوتی ہے کہ انہوں نے بعض نازک مسائل کی تلخی و تندی کو بڑی سادگی اور شیرینی کے ساتھ غزل کے پیمانے میں اتارلیا ہے۔ انہوں نے نعتیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے ان کی نعت گوئی پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
 
’’ جدید شاعری میں نعت کا رواج ایک نئے انداز سے ہوا ہے اور بعض روایتی خیالات کے سوا کچھ تازہ افکار بھی اس سلسلے میں بروئے اظہار آئے ہیں۔ اختر صاحب کی نعتوں میں یہ دونوں نئے پرانے عناصر پائے جاتے ہیں‘‘
 
اختر ۱۹۹۵ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد پٹنہ سیٹی کے معروف محلہ گذری بازار میں مقیم رہے۔ اور کبھی کبھی ریڈیو کے مشاعروں یا طرحی نشستوں میں شریک ہو کر کلاسیکی انداز میں پانا کلام سناتے رہے۔۱۹؍ دسمبر ۲۰۰۹ء کو مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ اور پٹنہ  سیٹی میں مدفون ہوئے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے:
 
پیش حضور عشق کے جذبات لے چلو
 اشکوں کا نور درد کی سوغات لے چلو
 تھم جائے گی یہ خود ہی دیارِ رسولؐ میں 
تم اپنے ساتھ گردشِ حالات لے چلو
 ٹھنڈک ملے گی خنکی صبح وصال سے
 جھیلے ہیں جتنے ہجر کے صدمات لے چلو
چھلکے گا جام بادۂ کوثر جواب میں
 لب پہ سجا کے تشنہ سوالات لے چلو
 
٭٭٭
 
رئیس شہر کرائے کے گھر میں رہتا ہے
عمارتوں کا خدا اب کھنڈر میں رہتا ہے
 ہزار تیز ہوا ہو مگربہ فیض جنوں
چراغِ نقش قدم رہ گذر میں رہتا ہے
 
٭٭٭
 
سورج پسِ حجاب اندھیرا ہے سامنے
 یہ کون سی صدی کا سویرا ہے سامنے
 اپنا ہی عکس دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں لوگ
 نا فہمیوں کا آئینہ دکھا ہے سامنے
 
٭٭
 
کاسۂ شوق یہ بھر جائے کہ خالی جائے
 آپ جس طرح سے کہئے یہ سوالی جائے
ہر نفس تازہ مصیبت ہے الٰہی توبہ
 کیسے جینے کی بزرگوں سے دعالی جائے
٭٭٭
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*******************************

 

 
You are Visitor Number : 1720