اختر نے زیادہ تر غزلیں کہی ہیں اور میرے خیال میں ان کا مجموعہ کلام آشوب آگہی ، اس اعتبار سے اسم با مسمیٰ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں شریک اشاعت بیشتر غزلیں بنیادی طور پہ بنی نوع انساں کے اس مستقل اور مسلسل کرب سے عبارت ہیں جو لا علمی یا گمرہی سے نہیں بلکہ آگہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بات پہ حیرت آمیز مسرت ہوتی ہے کہ انہوں نے بعض نازک مسائل کی تلخی و تندی کو بڑی سادگی اور شیرینی کے ساتھ غزل کے پیمانے میں اتارلیا ہے۔ انہوں نے نعتیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے ان کی نعت گوئی پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
’’ جدید شاعری میں نعت کا رواج ایک نئے انداز سے ہوا ہے اور بعض روایتی خیالات کے سوا کچھ تازہ افکار بھی اس سلسلے میں بروئے اظہار آئے ہیں۔ اختر صاحب کی نعتوں میں یہ دونوں نئے پرانے عناصر پائے جاتے ہیں‘‘
اختر ۱۹۹۵ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد پٹنہ سیٹی کے معروف محلہ گذری بازار میں مقیم رہے۔ اور کبھی کبھی ریڈیو کے مشاعروں یا طرحی نشستوں میں شریک ہو کر کلاسیکی انداز میں پانا کلام سناتے رہے۔۱۹؍ دسمبر ۲۰۰۹ء کو مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ اور پٹنہ سیٹی میں مدفون ہوئے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے:
پیش حضور عشق کے جذبات لے چلو
اشکوں کا نور درد کی سوغات لے چلو
تھم جائے گی یہ خود ہی دیارِ رسولؐ میں
تم اپنے ساتھ گردشِ حالات لے چلو
ٹھنڈک ملے گی خنکی صبح وصال سے
جھیلے ہیں جتنے ہجر کے صدمات لے چلو
چھلکے گا جام بادۂ کوثر جواب میں
لب پہ سجا کے تشنہ سوالات لے چلو
٭٭٭
رئیس شہر کرائے کے گھر میں رہتا ہے
عمارتوں کا خدا اب کھنڈر میں رہتا ہے
ہزار تیز ہوا ہو مگربہ فیض جنوں
چراغِ نقش قدم رہ گذر میں رہتا ہے
٭٭٭
سورج پسِ حجاب اندھیرا ہے سامنے
یہ کون سی صدی کا سویرا ہے سامنے
اپنا ہی عکس دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں لوگ
نا فہمیوں کا آئینہ دکھا ہے سامنے
٭٭
کاسۂ شوق یہ بھر جائے کہ خالی جائے
آپ جس طرح سے کہئے یہ سوالی جائے
ہر نفس تازہ مصیبت ہے الٰہی توبہ
کیسے جینے کی بزرگوں سے دعالی جائے
٭٭٭
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
*******************************